تحریر:حسن نثار
معاشرہ میں جانوروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لیکن اگر درندے سدھائے جا سکتے ہیں، ان کی تربیت ہو سکتی ہے تو جانور نما انسانوں یا انسان نما جانوروں کی کیوں نہیں ؟ لیکن اس کیلئے آہنی قیادت کی ضرورت ہو گی جس کے ایک ہاتھ میں زہر بجھی ننگی تلوار ہو اور دوسرے ہاتھ میں زیتون کی شاخ اور انصاف کا تزازو لیکن آج یہ میرا موضوع نہیں ۔
میرا موضوع ہے جھگڑالو، ناراض اور غصیلی نسلیں جو بات بات پر بھڑک اٹھتی ہیں، بات بات پر بری طرح مشتعل ہو کر دوسروں کو اجاڑتے اجاڑتے خود بھی اجڑ جاتی ہیں کہ قدرت کبھی ادھار نہیں رکھتی ۔پہلی نہ سہی، دوسری یا تیسری نسل کو قیمت چکانا پڑتی ہے ۔تیمور سے بڑا فاتح کون ہو سکتا ہے لیکن پھر اسی کی اولاد کے بارے شاعر کو یہ بھی لکھنا پڑا ۔
’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ‘‘
قدرت کا انتقام ایسی ایسی شکلوں میں نمودار ہوتا ہے کہ انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ ایک بلوچ افسانہ نگار کا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا۔ اس کا افسانہ آغا امیر حسین مرحوم کے ’’سپوتنک‘‘ ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ’’غیرتی ‘‘ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ایک انتہائی خوبصورت نوجوان شک کی بنا پر اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور جیل پہنچ جاتا ہے جہاں اسے ’’غیرتی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے لیکن پھر اس غریب و حسین ’’غیرتی‘‘ کے ساتھ جیل میں کیا کچھ ہوتا ہے؟
یہی وہ کہانی ہے جو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو پڑھائی جانی چاہئے۔ لوگوں کا مزاج عجیب سا ہوگیا ہے۔ بات بات پرسیخ پا اور مشتعل ہو کر ساری حدود پار کر جاتے ہیں۔ ایسی ایسی بات پر نوبت قتل وغارت تک پہنچ جاتی ہے کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ خدا جانے یہ فرسٹریشن ہے، ڈپریشن ہے، خود انتقامی ہے، غیر یقینی پن کی انتہا ہے، خود اپنے آپ یا اپنے حالات سے شدید مایوسی یا نفرت ہے جو چشم زدن میں پاگل پن تک لے جاتی ہے۔
روز اخباروں میں ایسی خبریں ہوتی ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ گولی مار دینے یا چھریاں چلا دینے، تیزاب یا کھولتا پانی ڈال دینے والا واقعی کوئی انسان تھا ۔ اپنے بچے مار دینا، کلہاڑی کے وار کر دینا، گلا گھونٹ کے دفن کر دینا، معصوم بچے کو ذبح کرکے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا، چھوٹے بچوں کو نہر میں بہا دینا۔ کیا باقی معاشروں میں بھی ایسی ہی مار دھاڑ ہوتی ہے؟
چند روز پہلے بہاولپور کے کسی زمیندار نے بکری کھیت میں گھسنے پر مزارع کی چھ سالہ بچی کو گولی مار دی۔ اگلے روز اک اور خبر تھی کہ بلاوجہ، شغلاً مزہ لینے کیلئے کسی جنونی نے کمسن بچے پر کتا چھوڑ دیا ۔چار پانچ سواریاں موٹر سائیکل پرلاد کر سڑک پر یوں لہراتے پھرتے ہیں جیسے کسی موت کے کنویں میں کرتب دکھا رہے ہوں۔
کمسن بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑی پکڑا کر خوش ہوں گے کہ برخوردار ’’جوان‘‘ ہو گیا۔ نہ اپنی اولاد کا خیال نہ دوسروں کی اولادوں پر رحم۔پوچھو تو کہیں گے ’’بلڈپریشر‘‘ ہے حالانکہ یہ جاننا ضروری ہے کہ بلڈ پریشر کی وجہ سے غصہ ہے یا غصہ کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوئے ہو۔ نامور ماہر نفسیات ڈاکٹر سعد بتارہے تھے کہ غصہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی دہکتے انگارے ہاتھوں میں لیکر دوسرں پر اچھالنا شروع کر دے۔
دوسرے کو تو شاید ایک آدھ انگارہ بھی نہ لگے لیکن غصیل کے دونوں ہاتھ یقیناً جل جائیں گے۔ ضروری ہے کہ لوگوں کو ’’اینگرمینجمنٹ‘‘ کے بارے کچھ بتایا سمجھایا جائے لیکن یہ ’’کارخیر‘‘ کرے کون ؟ ٹی وی پروگرامز کی بے مقصدیت، ریٹنگ کا جنون ایک کہانی اور مذہبی رہنما تو نہ ایسی باتوں کو ضروری سمجھتے ہیں نہ ان پر توجہ دیتے ہیں نہ غور فرماتے ہیں کہ ان کے لیکچر، بھاشن، وعظ گناہ و ثواب کے علاوہ کسی شے میں دلچسپی نہیں لیتے حالانکہ غصہ بھی حرام سے کم نہیں۔
ڈاکٹر سعد نے بتایا کہ ہر باشعور کو اندازہ ہونا چا ہئے کہ غصہ کب کرنا ہے ؟ کتنا کرنا ہے ؟ کیوں کرنا ہے ؟ اس کا دورانیہ کتنا ہونا چاہئے ؟ اسے ہینڈل کیسے کرنا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ اور اس سے بھی ایک قدم آگے یہ فہم کہ آپ کا ’’ہاٹ بٹن‘‘ کون سا ہے ؟ کیونکہ بنیادی طور پر حالات وواقعات نہیں، دراصل آپ کے خیالات آپ کو غصہ کی آگ میں جھونکتے ہیں اور ’’لوگ‘‘ نہیں، بنیادی طور پر آپ کی سوچ اور اس کا انداز آپ کو غصہ دلاتا ہے سو ضروری ہے کہ ہم سب انسانوں کو کلاسیفائی کرنا سیکھیں۔
اکثریت لا علمی، بے خبری، جہالت، ذہنی پسماندگی، مختلف قسم کے ذہنی مسائل کا شکار ہے۔ آپ کو ان پر غصہ نہیں رحم آنا چاہئے، انہیں بیدردی نہیں ہمدردی کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف یہ بھی بہت اہم ہے کہ غصہ دبانا نہیں، اس کے اظہار کا طریقہ تبدیل کرنا اور یہ جاننا ہے کہ PEOPLE HAVE THE RIGHT TO BE WRONG غربت، محرومی، لاچارگی اور بے بسی تو انسان کو خود سے متنفر کر دیتی ہے، معاشرہ کس کھاتے میں…..
I WANT MY WAY AT EVERY COSTوالا رویہ بھی آمرانہ اور غیر انسانی ہے اور جس کے اندر جس قدر خوف خدا ہو گا غصہ بھی اتنا ہی کم ہو گا اس معاشرے میں خوف خدا کا ذکر تو بہت ہے وجود کہیں نہیں ۔
تعلیم و تربیت سے محروموں کو تو چھوڑیں ’’پڑھے لکھے‘‘ بھی نہلے پہ دہلے ہیں ۔ اونٹ نما معاشرہ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں لیکن اونٹ انتہائی سخت جان، بھوکا پیاسا بھی جیئے جاتا ہے، صحرائی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن بہت غصیلا اور منتقم مزاج اور کینہ پرور بھی ہوتا ہے ۔
آخر یہ عوام نہیں، خواص، ان پڑھوں نہیں عالموں، فاضلوں کیلئے ANGERیعنی غصہ کے حوالے سے چند محاورے، چند گورے قول، چند ٹپس
“ANGER IS ONE LETTER SHORT OF DANGER”
“ANGER IS MOMENTARY MADNESS”
معاشرہ کے بڑوں کو اندازہ نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی یہ وائرس تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے ۔جھگڑالو، ناراض چڑچڑی اور غصیلی نسلوں کا سوچیں لیکن یہاں تو دن رات حکومتوں کو بھی دال روٹی کے لالے پڑے ہیں۔
باقی رہ گئے دانشور، سیاست دان، روحانی لیڈرز، ٹیچرز وغیرہ تو ان کی آنکھوں میں بھی شعلے، زبانوں پر انگارے، کانوں سے دھواں، رویوں میں چڑچڑے پن، گفتگو میں زہر، غصہ اور ناراضی کے سوا کیا ہے ؟یہ نفرت، تعصب، انتہا پسندی، عدم برداشت کیسے کیسے گل کھلا رہی ہے ؟
کس کس شعبہ میں گلستان بنا رہی ہے ؟ اعضاء،اعضاء کو کھا رہے ہیں اور ہر قسم کی اشرافیہ اس ’’دعوت عام‘‘ سے لطف اندوز ہو رہی ہے لیکن کب تک؟