اسلام آباد: آئی سی آئی جے کی جانب سے ریلیز کیے گئے پنڈورا پیپرز میں دنیا کے 90 ممالک کی 330 طاقتور شخصیات کے بیرون ملک اثاثے اور آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔
جن طاقتور شخصیات کے اثاثے اور آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں ان میں اردن، قطر، امارات، یوکرین، کینیا، ایکواڈور اور چیک ری پبلک سمیت 35 ممالک سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور سابق حکمران شامل ہیں۔
نئی معلومات میں 200 ممالک کے افراد کی 29 ہزار آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے اور ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق روس، برطانیہ، ارجنٹائن، چین اور برازیل سے ہے۔
امریکا چھپی ہوئی دولت کیلئے پرکشش ملک
عالمی رہنماؤں اور دیگر عوامی عہدیداروں کی زیادہ تر آف شور کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ جس وقت امریکا کالے دھن کو چھپانے کیلئے غریب ممالک کی مذمت کرتا ہے اسی وقت پنڈورا پیپرز میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پہلی مرتبہ امریکا چھپی ہوئی دولت کیلئے پرکشش ملک بن چکا ہے۔
امریکا دنیا میں ٹیکس کا پیسہ چھپانے کیلئے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جہاں صرف ایک ریاست (شمالی ڈکوٹا) میں 300 ارب ڈالرز کے اثاثے چھپائے گئے ہیں۔
امریکا کی دیگر 16 ریاستوں میں 206 ٹرسٹ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ جنوبی ڈکوٹا میں سب سے زیادہ 81 ٹرسٹ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور یہیں سے زیادہ ڈیٹا ملا ہے۔
اردن کے شاہ عبداللہ اربوں ڈالرز کی پراپرٹی کے مالک
اردن کے شاہ عبداللہ دوم کی کیلیفورنیا سے واشنگٹن اور لندن تک اربوں ڈالرز کی پراپرٹیز ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم محمد بن راشد اور قطر کے امیر شیخ تمیم بھی آف شورز کمپنیوں کے مالک ہیں۔
روس کے صدر ولادمیر پیوٹن کا نام براہ راست آف شور کمپنی بنانے والوں میں شامل نہیں تاہم ان پر ساتھیوں کے ذریعے خفیہ اثاثوں سے منسلک ہونے کا الزام ہے۔
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر، آذربائیجان کے صدر الہام کے اہل خانہ کی بھی خفیہ جائیدادیں سامنے آئی ہیں۔
فائلوں پر تحقیق سے 45 ممالک سے تعلق رکھنے والے 130 ارب پتی افراد کے آف شور اثاثہ جات کا انکشاف ہوا ہے۔
آف شور کمپنیاں رکھنے والے رہنماؤں کے نام
آف شور اثاثے رکھنے والے موجودہ اور سابق غیرملکی رہنماؤں اور ان کے عزیز و اقارب کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
اردن کے شاہ عبداللہ دوم، چیک ری پبلک کے وزیر اعظم آندریج بابیز، کینیا کے صدر یوہورو کینیاٹا، کانگو کے صدر ڈینس، لبنان کے وزیراعظم نجیب مکاتی، متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم محمد بن راشد المختوم، ڈومینکن ریپبلک کے صدر لوئس ابیندار، ایکواڈور کے صدر گوئیلرمو لاسو، مونٹی نیگرو کے صدر میلو جوکانووک اور یوکرین کے صدر وولو دی میئر زیلنسکی کے نام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی، سری لنکا کی سابق وزیر نیرو پاما راجہ پکسا، مراکش کی شہزادی لالا حسنہ، آذر بائیجان کے صدر الہام علیف کے بچوں، چلی کے صدر سباستین کے بچوں، روسی صدر پیوٹن کے قریبی ساتھیوں، برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر، ہانگ کانگ کے سابق چیف ایگزیکٹو سی وائی لیونگ، بحرین کے سابق وزیراعظم شیخ خلیفہ بن سلمان ال خلیفہ، اردن کے سابق وزیراعظم عبدالکریم، اردن کے سابق وزیراعظم نادر و دیگر شامل ہیں۔
پنڈورا پیپرز میں بھارت کے معروف صنعتکار انیل امبانی، سابق بھارتی کرکٹر سچن ٹنڈولکر کی بھی آف شور کمپنیاں نکل آئیں۔
ارب پتی افرادکے پاس 600 ارب ڈالر کے اثاثے
فوربز میگزین کے مطابق اِن 100 ارب پتی افراد کے پاس کُل 600 ارب ڈالرز کے اثاثے موجود ہیں۔
اگر آف شور کمپنیوں کو ٹیکس حکام یا ریگولیٹرز (جیسا کہ پاکستان میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا ادارہ ہے) کے پاس رجسٹر کرایا گیا ہے تو یہ کمپنیاں قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔
کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کمپنیاں اِس لیے بناتے ہیں تاکہ عالمی سطح پر کاروباری لین دین میں آسانی ہو لیکن ایسے اقدامات پر اکثر تنقید کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ کام اکثر اوقات ٹیکس بچانے یا پھر کم ٹیکس والے ممالک میں صرف کاغذات کی حد تک قائم شیل کمپنیوں کے ذریعے اپنی دولت یا منافع کو ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔