نظر نہ آنے والا ٹِڈّی دَل

آپ نے کبھی ٹڈی دل دیکھا ہے۔کچھ تو چھوٹے موٹے دَل ہوتے ہیں، آکر گزر جاتے ہیں،لیکن کبھی کبھی کالی گھنگھور گھٹاؤں جیسے دَل بھی ہوتے ہیں کہ وہ آجائیں تو سورج کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے اور جب وہ گزرجائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جاتے جاتے کھڑی فصلیں چٹ کرگئے۔ سبزے پر ایسا ٹوٹے کہ ایک ذر ا سی پتّی بھی نہ چھوڑی۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ میں کیسا موضوع لے بیٹھا ۔ وقت بدل رہا ہے۔ ادھر ایک نئی اصطلا ح چلی ہے ’راکٹ سائنس‘۔

اسی طر ح ایک اور اصطلاح وجود میں آنے کو ہے: ٹڈی دَل سائنس۔یہ ایسا ٹڈی دَل ہے جو ’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘۔عام طور پر یہ مخلوق کہ ٹڈّی کہیں جسے،گرم، خشک یا قدرے مرطوب مقامات پر پیدا ہوتی ہے۔

اس کی مادہ ایک خوش حال ٹھکانا تلاش کرکے لاکھوں انڈے دے کر اگلی چراگاہوں کی طرف چلی جاتی ہے۔ یہاں یہ نئی نسل یوں پیدا ہوتی ہے جیسے زمین سے کوئی چشمہ پھوٹ رہا ہو۔ بس صورت یہ ہوتی ہے کہ ٹڈی کے بچے ابل رہے ہوتے ہیں۔

یعنی اگلی نسل اڑان بھرنے کے لئے تیار ہو رہی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس نئی نسل کو زہریلا اسپرے کرکے یا کسی طرح کچل کر وہیں ہلاک کر دیا جائے ورنہ یہ اولاد صرف دو ہفتوں میں بالغ ہوکر نئے انڈے دینے کے قابل ہو جاتی ہے۔

میں نے فلموں میں دیکھا ہے لوگ اونچے بوٹ پہن کر انڈوں یا نئے بچوں کو پیروں سے کچل کچل کر تلف کرتے ہیں۔مگر یہ انڈے بچے ان گنت ہوتے ہیں اور ان کا مکمل صفایا کرنا قریب قریب نا ممکن ہوتا ہے۔

کوئی مشکل سے یقین کرے گا کہ نیا ٹڈی دَل سینکڑوں میل کے سفر پر روانہ ہوتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ سر سبز چارہ کس طرف اور کہاں ملے گا۔

بس یہ ہریالی کی طرف چل پڑتا ہے اور وہاں پہنچ کر جہاں غریب محنت کش نے خون پسینہ ایک کرکے تازہ فصل اگائی ہے،یہ چاقو سے زیادہ تیز دانتوں سے ایک ایک شاخ، ایک ایک ٹہنی اور ایک ایک پتّی کو آناً فاناً کتر کر ہڑپ کرجاتا ہے اور اپنی اس کمائی کو توانائی میں تبدیل کرکے اگلے پڑاؤ کی طرف چل پڑتا ہے اور اپنے پیچھے ایسی تباہی اور ویرانی چھوڑ جاتا ہے کہ غریب کسان اور اس کے بیوی بچے دو وقت کی روٹی تک سے محروم ہوجاتے ہیں۔

سائنس دا ں حیران تھے کہ یہ ٹڈّی جیسی مخلوق دور دور کے علاقو ں تک اڑنے کے لئے اتنی توانائی کہاں سے اور کیسے لاتی ہے؟ پتہ چلا کہ اس کے بدن میں ایک خانہ ایسا ہوتا ہے جس میںیہ توانائی کا ذخیرہ کرلیتی ہے اور لمبے سفر کے دوران حسب ِضرورت ا س ذخیرے سے توانائی لیتی جاتی ہے۔

یہاں تک کہ نئی چراگاہ تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر ہریالی پر ہاتھ صاف کرتی ہے اور توانائی کا نیا ذخیرہ بٹورنے لگتی ہے۔اپنے پیچھے تباہی چھوڑنے والی اس مخلوق کو زمانے نے عذاب کا نام دیا ہے۔ انجیل مقدس میں ٹڈی کے ہاتھوں تباہی پھیلنے کا ذکر ملتا ہے۔

تاریخ میں بارہا ایسے ٹڈی دَل نمودار ہوئے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب آئے ، کدھر سے آئے اور کتنا چارہ ہڑپ کر گئے اور اپنے پیچھے کتنی تباہی چھوڑ گئے۔ وہ راہ میں بٹوری گئی توانائی کو کیسے چھپاتے،کہاں ذخیرہ کرتے ہیں، اس پر کیسے پردہ ڈالتے ہیں۔

کیا کسی دوسری مخلوق کے گھونسلے میں ڈال آتے ہیں جیسے بعض پرندے دوسرے پرندوں کے گھونسلے میں انڈے دے جاتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس ٹڈی دل سائنس کو سمجھنے میں ہمیں آج تک دِقّت ہورہی ہے۔ سینکڑوں ملکوں کے ہزاروں کھوجی ان گنت فائلوں کو کھنگال چکے ہیں ۔ یہی نہیں ، بارہا معاملے کی تہ کو پہنچ چکے ہیں لیکن ہماری یہ ٹڈّی صفائی سے بچ نکلتی ہے۔ اس پر لاکھ الزام دھریے، لاکھ جرم پر سے پردہ اٹھائیے، یہ دندناتی پھرتی ہے۔ کون سا ہاتھ ہے جو اسے بچالیتا ہے۔

یہ نڈر ہوکر نئے بچے نکالتی رہتی ہے جن پر نہ زہریلا اسپرے اثر کرتا ہے نہ اونچے بوٹوں سے کچلنے کی تدبیر کام کرتی ہے۔ یہ کچلے جائیں تو ان کی آل اولاد اگلی چراگاہ کے لئے اپنے دانت تیز کرنے لگتی ہے غرض یہ کہ یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔

مجھے رہ رہ کر ان غریب اور لا چار محنت کشوں کا خیال آتا ہے جو خون پسینہ ایک کرکے اپنی فصلیں اگاتے ہیں اور دن رات ایک کرکے انہیں پروان چڑھاتے ہیں کہ اس ٹڈی دَل کا جیسے ہی داؤ لگتا ہے، یہ اپنے چاقو جسے دانتوں کو تیز کرتا ہوا اس صفائی سے اپنا کام کر گزرتا ہے کہ کسی کو کانو ں کان خبر نہیں ہوتی۔

ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ٹڈیاں کھڑی فصل پر دھاوا بول رہی ہیں اور کسان اور اس کے بیوی بچے اونچی آواز والے بھونپو بجا کر، دھواں چھوڑ کر اور ہوا میں خالی بوریاں لہرا لہرا کرہوس کی ماری ہوئی ٹڈی کو اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں مگرقدرت کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہوتا وہی ہے جو ٹڈی چاہتی ہے۔ساری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔

سب جانتے ہیں، سب کوخبر ہوتی ہے کہ غریب کی کمائی پر کس نے اپنے ہاتھ صاف کئے۔

کس کی آنکھ بچی اور کس کا داؤ لگا۔مگر وہ اتنی معصوم اورایسی بھولی شکل بنائے گھوم رہی ہوتی ہے کہ ایک بار تو خود ٹڈی کو شرم آجائے اور وہ ندامت سے سر ڈال دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں