پشاور میں پیش آنے والے سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کو سات برس مکمل ہوگئے ہیں۔
16 دسمبر 2014 کو پاکستانی تاریخ کا دردناک واقعہ رونما ہوا جس میں 6 دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پرحملہ کیا اور علم کی پیاس بجھانے والے طلباء پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کی جس سے معصوم طالب علم اور بے گناہ اساتذہ خون میں لت پت ہو گئے اور اسکول بارود کی بو سے آلودہ ہوگیا۔
حملے کے فوری بعد سکیورٹی فورسز نے اسکول کا گھیراؤ کیا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے چھ خودکش حملہ آوروں کو طویل آپریشن کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا۔
درندہ صفت دہشتگردوں کے حملے میں 147 افراد شہید ہوئے جن میں 122 طلباء ، 22 اسکول اسٹاف ممبر اور تین سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔
آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث چھ دہشتگردوں کو سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا جنہیں ملٹری کورٹس نے موت کی سزائیں سنائیں اور چار دہشتگردوں کو 2015 جبکہ ایک کو 2017 میں سولی پر لٹکایا گیا۔
اسی سانحے میں دو بھائیوں میں ایک شہید اور دوسرا شدید زخمی بھی ہوا۔ زندہ بچ جانے والے بھائی کا کہنا ہے کہ اس المناک واقعہ نے اسے مشکل حالات سے لڑنے کا حوصلہ دیا۔
سانحے نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نئی روح پھونکی جس کے نتیجے میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے کر قبائلی علاقوں سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا گیا۔
سانحہ اے پی ایس میں منوں مٹی تلے دبانے والے اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں تو دکھی ہوجاتے ہیں تاہم جب انہیں شہداء کے لواحقین کے حوالے سے پکارا جاتا ہے تو وہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ جہاں شہداء آرمی پبلک اسکول کی قربانیوں کے مرہون منت ہے وہیں آئندہ نسلوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے والے تعلیم دشمنوں کے مذموم عزائم بھی خاک میں مل گئے۔