دنیا انسانوں کے مختلف الخیال گروہوں سے بھری پڑی ہے،جو ہر چمکتی چیز کو سونا،چڑھتے سورج کو سلام اور ہر نویکلی اور اُچھوتی فکر کے آگے سر کو جھکا دیتے ہیں ۔علم میں تنّوع جائز ہے،مگر بیؔن مسلمؔات میں شک موزوں نہیں ۔
پاکستانی لکھنے والے کیا ؟اک جہاں مغربی دنیا کی عقلی اور عملی دانشمندی کا مُعترف چلا آرہا ہے۔
جب سے مسلمانوں نے اسرارِ جہانبانی سے آنکھیں چُرائیں،خلافت کی جگہ ملوکیت در آئی،تو اپنے ساتھ حُبّ دنیا اورحب مال بھی لیتی کِشور کشائی ،ذوقِ خدائی ،فاقہ مستی اور تدبّر آیاتِ خداوندی،بے نیازی ۔۔؛بے موقع اور بے محل طریقِ زندگی ٹھہرا ،تو بتدریج مسلمانوں پر ذلّت ومسکنت چھاتی گئی۔
نظام ہائے زندگی کیلئے اوروں کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے۔ دنیا کو ایک وقت میں روشن تہذیب و تمدّن سے آشنا کروانے والے لوگ خود دوسروں کے فکرو نظر کے مُحتاج ہو گئے ابھی حال میں ہی مغربی اقوام کے سربراہ ملک امریکہ نے “گلوبل ڈیموکریسی کولیشن فورم انٹرنیشنل” کے نام سے دنیا کے کچھ ممالک کو اکھٹا کیا اور جمہوریت،عوامی فلاح و بہبود اور مختلف ممالک میں قائم بادشاہت نما حکومتوں کو عوامی بنانے کیلئے مکالمات کا آغاز کیا۔
دوسری طرف ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین نے بھی اسی قسم کے ایجنڈے پہ مشتمل اور ممالک کے آن لائن اجلاس بلائے،جس میں حکومتی عہدیداران ،مدبرین اور سیاسی رہنماء شریک تھے دلچسپ بات یہ ہے ایک گروہ سیکولرازم اور مذہب کا ملا جلا ملغوبہ اور دوسرا گروہ کھلا خدا بیزار ہے۔
دہریّت اور آزادیٴ فکر میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔اسلام کا ادغام ممکن نہیں کوئی مانے یا نہ مانے، اسلام کا ٹکراو باقی تمام نظام ہائے زندگی سے ہوتا رہے گا،تا وقتیکہ دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے ،آپ دیکھیں لیبیا ،سو ڈان اور مصر کی آزادی کی تحریکوں کے پیچھے یہی اسلامی فکر کاربند تھی ،کہ مسلمان صرف اللہ کے آگے سر کو جھکاتے ہیں کسی نظام کے آگے نہیں ،جس کا اظہار بی آر امبیدکر اور نو مسلم سکاٹش لار ڈ ھیڈلے فاروق نے اسلامی لٹریچر کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی تحریروں اور تقریروں میں کیا ۔
ہاں مگر ایک بات ضرور ہے،معاشرہ اور تہذیب کوئی بھی رہی ہو،اپنے لئے عدل وانصاف کے حصول کے لیے کوششیں ضرور کرتے رہے ہیں۔شائد فطرتِ انسانی عدل کی متمنّی ہوتی ہے۔اور مالکِ کون و مکاں نے تمام تماشہُ حیات بھی تو عدل پر اُستوار کیا ہے،اور اختتام بھی وعدۂ عدل پر ہی ہے۔
375 قبل از مسیح،افلاطون کی “دی ریپبلک” تاریخ انسانی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔جس میں مکالماتِ سقراط کو افلاطون نے اپنے کچھ مزید مباحث سے نمایاں کردیا ہے۔
موضوع وہی ریاست کا ایک شہری کے ساتھ کیسا تعلق ہو؟ کیسی دستور سازی کی جائے کہ ایک شہری کو انصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔اور شہری فنونِ لطیفہ،شاعری اور ڈرامہ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے،فلسفہ اور ما بعد الطبیعات پر غور کرتے ایک پُرسکون زندگی گزار سکے۔
اس کے بعد مغربی اقوام میں “میگنا کارٹا”اور روسو کے عمرانی معاہدے کا بڑا اثر ہے
میگنا کارٹا 1215میں انگلستان کے بادشاہ جان اور باغی جاگیرداروں کے درمیان طے پایا،اس میں بھی انصاف کی دُھائی دی گئی کہ غیر قانونی قید کو ختم کیا جائے اور چرچ کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔
سترہویں صدی میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہونے والے مغربی
مفکر روسو کا بڑا چرچا ہوا،فرانس میں اس کی معاہدہ عمرانی کتاب نے ہلچل مچادی۔اور اس کا ایک فقرہ چار دانگ عالم میں شہرت اختیار کر گیا،
“انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔”
روسو بذاتِ خود والٹیئر سے متاثر تھا۔
اس کے علاوہ ہابس اور لاکس بھی تاریخِ مغرب میں اپنے اپنے عمرانی معاہدے پیش کرتے رہے۔اب زیادہ تر مغربی اقوام ان ہی کی فکر سے رہنمائی حاصل کر رہی ہیں،وہ بھلے کینیڈین قوانین ہوں یا امریکی بابائے قانون،چوتھے امریکی صدر جیمز میڈیسن کی قانونی اصطلاحات،سب میں انہی کی جھلک نظرآتی ہے۔انیسویں صدی میں ایک اور بھی دور گزرا جب ایک انگلش مدیر جارج جیکب ہولیک نے پہلی دفعہ سیکولرزم اور جِنگوازم کی اصطلاح استعمال کی اور رفتہ رفتہ تمام اقوام عالم اس کی لپیٹ میں آگئیں۔سیکولرازم سے لوگ بخوبی آگاہ ہیں،جنگوازم قارئین کے لیے نامانوس لفظ ہے شاید۔
جِنگوازم اپنے معنوں میں حد درجے کی حبّ الوطنی اور ملک کے مفاد کے لئے جارحانہ پالیسی لئے ہوئے ہے۔
اس کا حاصل یہ ہوا کے طاقتور اقوام نے کمزور اقوام کو خوب لُوٹا اور تباہی و بربادی برپا کردی ۔
مگر آہستہ آہستہ مغربی اقوام سیکولرازم کی راہ سے ہٹ کے دہریت کے راستے پر چل پڑیں،مسلمانوں کی خلافت ختم کر کے خود اپنی یورپی یونین بنا ڈالی،اور اپنے مفادات کے لئے جائز نا جائز سب برابر کر دیا۔
ریاست،جمہوریت اور حقوق وآزادی کی بات کرتے دنیا فاروقِ اعظم کے ان تاریخی الفاظ کا حوالہ نہیں دیتی،اور بھول جاتے ہیں اِن تمام مقننین سے پہلے آپ نے ایک مصری شخص کی دادرسی کرتے اور عمر ابنِ العاص،فاتح مصر کے بیٹے کی سرزنش کرتے ہوئے عمر بن عاص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائے۔۔
کہا۔
“تم نے لوگوں کو غلام بنانا کب سے شروع کردیا،اِن کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔”
عمر بن خطاب نے یہ ہدایت اُس خیرالبشر صلی اللہ علیہ وسلم سے لی تھی،جو دنیا کو دستورِ قرآن اور اپنی سنّتِ مُطہّرہ دے گئے ۔
قرآن کہتا ہے۔
“جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو”
اسلامی نظامِ ریاست میں دستوری قوانین کے ماخذ قرآن وسنت ہیں۔پھر خلفاء راشدین اور مجتہدین کے فیصلے ہیں۔
اگرچہ قدیم فقہی لٹریچر کی ازسرنو ترتیب وتدوین تاحال فریاد کناں ہے۔
اسلامی ریاست سورۃ فاطر میں ہے۔
“وہ اللہ ہے،تمہارا رب،ملک اسی کا ہے”
سورۃ اعراف میں انتباہ کیا۔
“خبردار خلق اسی کی ہے،اور امر بھی اسی کا ہے”
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
کنزالعمال میں ہے۔
“اسلام اور ریاست دو جڑواں بھائی ہیں۔دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے۔جس عمارت کی بنیاد نہ ہو،وہ گر جاتی ہے۔اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لُوٹ لیا جاتا ہے۔”
نظریاتی اسلامی ملک میں جمہوریت کے خط و خال انہی اصول و قوانین کی بِنا پر وضع کئے جاسکتے ہیں۔
اور خطبہ حجتہ الوداع سے افراد کے حقوق بھی کتابوں میں رقم ہیں۔
اب یہ علمائے اسلام کا کام بنتا ہے کہ دنیا کو اسلامی ریاست کی عملی تصویر سے روشناس کروائیں۔
علمی مواد درکار ہو تو پاکستان کے دو تین شیخ الاسلام سید ابوالاعلی مودودی کی معرکۃ الآرا تحقیقی کتاب “اسلامی ریاست” کے حوالہ جات دے سکتے ہیں۔
افسوس یہ کتاب بھی ایسے طاقِ نسیاں کر دی گئی،جیسے کبھی روسوء کے عمرانی معاہدے کو درخور اعتناء نہ سمجھا گیا
اور اس کے صفحات کو فرانس کی پارلیمنٹ کے آگے لوگ جلاتے رہے۔
واقعہ جو بھی رہا ہو،دنیا کے طویلے میں اپنی آواز تو بلند کریں،کہ ہمارے پاس بھی ریاستی قوانین اور اس میں موجود ہر شعبہ زندگی کے افراد کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک جامع لائحہ عمل موجود ہے،جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کو منوّر کر سکتا ہے۔
یا پھر در در کی ٹھوکریں کھانے کی عادت اپنا لی ہے۔
اکبر الہ آبادی کا نوحہ توجّہ طلب ہے۔
“عقائد پر قیامت آئے گی ترمیمِ ملّت سے
نیا کعبہ بنے گا،مغربی پُتلے صنم ہوں گے۔”
تحریر ۔۔ عمران رشید