وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ واحد تنازع کشمیر پر ہے اور 5 اگست 2019 کا اقدام واپس لیے بغیر بھارت سے بات کرنا کشمیریوں سے غداری ہو گی۔
وزیراعظم عمران خان کا فرانسیسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان میں اب کوئی تصادم نہیں ہے، افغانستان میں جامع حکومت ہونی چاہیے لیکن افغان عوام کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں، افغانوں نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ کابل کے سقو ط کے بعد سے 2 لاکھ سے زائد افغان پاکستان آ چکے ہیں لیکن پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کر سکتا، تنہا کوئی قدم اٹھایا تو پاکستان پر بہت زیادہ بین الاقوامی دباؤ آ جائے گا، پاکستان افغانستان کے اطراف تمام علاقائی ممالک کو ساتھ لیکر چلنا چاہتا ہے۔
دنیا کے پاس افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں
ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کی سرزمین سے دہشتگردی ہوتی ہے تو افغان متاثر ہوں گے، افغانستان میں جتنا استحکام ہو گا وہاں دہشتگرد پنپ نہیں سکیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے پاس افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل راستہ نہیں ہے، ہم تقریبا 4کروڑ افغانوں کی فلاح و بہبود کے خواہاں ہیں، خدشہ ہے پاکستان میں پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آئے گا، پاکستان میں پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد پناہ گزین موجود ہیں، پاکستان مزید پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
فرانس پاکستان کے لیے بہت اہم ملک
فرانس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ فرانس پاکستان کے لیے بہت اہم ملک ہے، پاکستان کی نصف برآمدات یورپ کو جاتی ہیں، میں فرانس کے صدر سے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم معیشت کو اسی صورت اوپر لے جا سکتے ہیں جب ہمارے دنیا سے اچھے تعلقات ہوں، فرانس میں پاکستانی سفیر کی تعیناتی کے لیے کام کر رہے ہیں، فرانس کا دورہ کرنا چاہوں گا لیکن فی الحال دورے کا پروگرام نہیں ہے۔
مسئلہ کشمیر کا براہ راست تعلق پاکستان
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت تبدیل کی، بھارت کا اقدام اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے، بھارت سے کشیدگی کی واحد وجہ جموں و کشمیر ہے، کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کا نظریہ اقلیتوں سے نفرت ہے، تعلیم یافتہ بھارتی کے لیے بھارت میں پلنا بڑھنا مسئلہ بنا ہوا ہے، بھارت سے بات ہو سکتی ہے لیکن پہلے بھارت کشمیر پر یکطرفہ اقدام واپس لے، اس کے بغیر بھارت سے بات کرنا کشمیریوں سے غداری ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت کوئی رابطہ نہیں ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار ہیں، بھارت کشمیر میں مظالم بند کرے، بھارت سے تعلقات 5 اگست کا غیر قانونی اقدام واپس لینے سے مشروط ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ سنکیانگ چین کا حصہ ہے یہ کوئی تنازعہ نہیں ہے جبکہ کشمیر کو دنیا نے تسلیم کیا کہ یہ ایک عالمی تنازعہ ہے، کشمیر پر آج تک یو این قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے نہیں ہو سکا، کشمیر کے معاملے کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے۔
امن میں امریکا کے شرکت دار ہیں تنازعات میں نہیں
ان کا کہنا کہ پاکستان کے امریکا سے بہت اچھے تعلقات قائم ہیں، امریکا سے تعلقات پر تنقید دہشتگردی اور افغان صورتحال کی وجہ سے کی، میں نے ہمیشہ افغانستان میں امریکی مہم جوئی پر تنقید کی، امریکا ابتدا میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے افغانستان آیا تھا لیکن افغانستان میں ناکامی پر پاکستان کو ذمہ دار ٹہرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مشترکہ مفاد افغانستان میں استحکام ہے، ہم امن میں امریکا کے شراکت دار ہیں تنازعات میں نہیں، پاکستانی عوام کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستانی قیادت کی ہے امریکا کی نہیں۔