روس اور یوکرین ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال مزید کشیدہ ہوتی جارہی ہے ۔
روس نے آج یوکرین سے اپنے سفارتی عملے کو نکالنا شروع کردیا ہے جبکہ یوکرین نے بھی اپنے شہریوں کو روس سے نکلنے کی ہدایات جاری کردی ہیں جس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔
دفاعی صلاحیتوں کے اعتبار سے روس بلاشبہ یوکرین سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اور یہ بات یوکرین بھی بخوبی جانتا ہے البتہ ممکن ہے کہ اسے مغربی ممالک اور امریکا کا تعاون حاصل ہو۔
اگر روس اور یوکرین کے فوجیوں کی تعداد اور دفاعی ساز و سامان کا تقابلی جائزہ کریں تو روس کا یوکرین سے کوئی مقابلہ نہیں بنتا۔
عسکری قوت
دنیا بھر میں عسکری قوت اور دفاعی ساز و سامان کے اعتبار کے ملکوں کی درجہ بندی جاری کرنے والے عالمی ادارے گلوبل فائر پاور اور آئی آئی ایس ایس ملٹری پاور کے اعداد و شمار کے مطابق روس دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت ہے جبکہ یوکرین کا نمبر 22 واں ہے
فوجیوں کی تعداد
فوجیوں کی مجموعی تعداد کی بات کی جائے تو یہاں بھی روس کو یوکرین پر بھاری سبقت حاصل ہے۔
روس کے فوجیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 29 لاکھ ہے جبکہ یوکرین کے پاس 11 لاکھ کے قریب فوجی موجود ہیں۔
ان میں سے روس کے فعال فوجیوں کی تعداد 9 لاکھ جبکہ ریزرو دستوں کی تعداد 20 لاکھ ہے۔ اسی طرح یوکرین کے فعال فوجیوں کی تعداد صرف 2 لاکھ جبکہ ریروز دستوں کی تعداد 9 لاکھ ہے۔
نوٹ: ریزرو دستوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملٹری سروس میں رہ چکے ہیں۔
جنگی طیاروں کی تعداد
کسی بھی جنگ میں بری فوج کو اگر فضائی معاونت حاصل نہ ہو تو ان کیلئے پیش قدمی مشکل ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ فضائی قوت جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اگر دونوں ملکوں کے پاس موجود جنگی طیاروں کا ذکر کیا جائے تو یہاں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔
روس کے پاس تقریباً 1511 جنگی طیارے موجود ہیں جبکہ یوکرین کے پاس موجود طیاروں کی تعداد محض 98 ہے۔
جنگی ہیلی کاپٹرز
اس میدان میں بھی روس یوکرین سے آگے ہے۔ یوکرین کے پاس صرف 34 ہیلی کاپٹرز ہیں جبکہ روس کی عسکری قوت میں 544 ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔
ٹینکس
موجودہ دور میں جنگ کے دوران ٹینکس کا کردار کسی حد تک محدود ضرور ہوا ہے تاہم ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ روس اور یوکرین کے معاملے میں ٹینکس کی اہمیت زیادہ ہے کیوں کہ روس یوکرین کے علاقوں میں پیش قدمی چاہتا ہے اور پیش قدمی کا محفوظ طریقہ ٹینکس کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔
روس کے پاس موجود ٹینکس کی تعداد 12 ہزار 240 ہے جبکہ یوکرین 2596 ٹینکس رکھتا ہے۔
بکتر بند گاڑیاں
روس کے پاس موجود بکتر بند گاڑیوں کی تعداد 30 ہزار 122ہے جبکہ یوکرین کے پاس 12 ہزار 303 بکتر بند گاڑیاں ہیں۔
قابل انتقال توپیں
روس کے پاس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی تقریباً 7571 توپیں موجود ہیں جبکہ یوکرین کے پاس اس طرح کی 2040 توپیں موجود ہیں۔
ایٹمی ہتھیار
یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ روس ایٹمی ملک ہے جبکہ یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود نہیں۔ سوویت یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے ماضی میں جو جوہری ہتھیار یوکرین کے پاس موجود بھی تھے وہ ان سے دستبردار ہوچکا ہے۔
روس کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد حتمی طور پر تو نہیں بتائی جاسکتی البتہ ایک محتاط اندازے کے مطابق روس کے پاس مختلف نوعیت کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 6 ہزار سے زائد ہے جبکہ امریکا کے پاس بھی تقریباً اتنے ہی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
دونوں ملکوں کی عسکری قوت کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات تو آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ یوکرین جنگ کی صورت میں روس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اگر امریکا یا یورپی ممالک نے اس میں مداخلت کی تو جنگ کا دائرہ مزید بھی بڑھ سکتا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کیا ہے؟
خیال رہے کہ 1922 میں جب سوویت یونین کی بنیاد ڈالی گئی تو یوکرینین سوویت سوشلسٹ ریپبلک (یوکرینین ایس ایس آر) بھی اس میں شامل تھا تاہم1991 میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو یوکرین نے بھی آزادی حاصل کی۔
البتہ روس اپنا شیرازہ بکھرنے کے باوجود سوویت یونین میں شامل ممالک کو کہیں نہ کہیں اپنا حصہ سمجھتا ہے اور یوکرین کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یوکرین میں قدیم روسی نسل کے باشندے بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں جن میں کریمیا، دونیستک اور لوہانسک میں ان کی اکثریت ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان اس سے قبل 2014 میں بھی جنگ ہوچکی ہے۔ دراصل یوکرین کی خواہش ہے کہ وہ یورپی یونین میں شمولیت حاصل کرے اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا حصہ بنے تاکہ اسے تجارتی و دفاعی تحفظ حاصل ہوسکے تاہم روس مختلف وجوہات کی بنا پر اس کے خلاف ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ یہ دو عوامل ہی ہیں۔