حکومت صحت کارڈ کو انقلابی اقدام قرار دے رہی ہے، اس کا باقاعدہ افتتاح بھی کردیا گیا اس کے باوجود صحت کارڈ پر علاج کے مستحق افراد بازار سے ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔حکومت نے صحت کارڈ کا اجراء تو کردیا لیکن غیرمناسب حکمت عملی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث شہری اس کے مکمل ثمرات سے محروم ہیں۔صحت کارڈ پر ایک خاندان 10 لاکھ روپے تک سالانہ علاج کی سہولت حاصل کرنے کا اہل ہے۔ قواعد و ضوابط کے مطابق علاج صرف انڈور میں زیر علاج مریضوں کا ہی ہو گا لیکن فیصل آباد میں کارڈ کے اجراء سے قبل سرکاری ہسپتالوں میں ماڈل فارمیسیزقائم ہی نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں صحت کارڈ کی سہولت حاصل کرنے کے اہل مریض بھی بازار سے ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔فیصل آباد کے 37 ہسپتالوں میں صحت کارڈ کی سہولت موجود ہے جہاں پر صحت کارڈ کاونٹرز بھی قائم کردئیے گئے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں کے سینٹرل پرچیز کنٹریکٹ میں تاخیر کی وجہ سے ادویات کی انتہائی قلت ہے، ماڈل فارمیسیز بھی موجود نہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹرز مریضوں کے لواحقین کو اوپن مارکیٹ سے ادویات خریدنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔دوسری جانب چیف ایگزیکٹو محکمہ صحت کہتے ہیں ہسپتال سے نہ ملنے والی ادویات اور ٹیسٹ ہیلتھ کارڈ پر ہی باہر سے کروائیں گے۔ حکومتی ایم پی اے لطیف نذیر کا کہنا ہے کہ صحت کارڈ پر علاج کے باوجود مریضوں کو ادویات نہ ملنے کا معاملہ وہ حکام بالا کے سامنے اٹھائیں گے۔شہریوں کا شکوہ ہے کہ صحت کارڈ پر علاج کی سہولت حاصل کرنے کا طریقہ کار بھی انتہائی پیچیدہ ہے اور دوسری طرف ادویات بھی باہر سے خریدیں گے تو صحت کارڈ کا کیا خاک فائدہ ہوگا.
Load/Hide Comments