ہر سال مارچ کے پہلے ہفتے میں پوری دنیا میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور عورت مارچ کے تحت پاکستان بھر میں عورتیں اپنے حقوق کے لیے جلسے اور جلوس منعقد کرتی ہیں۔ خواتین دنیا کی کل آبادی کا تقریباََ نصف حِصّہ ہیں گویا تقریباً 8ارب کی آبادی میں 4ارب خواتین ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین کے بغیر نہ تو کوئی گھر مکمل ہے اور نہ ہی اس کرہ ارضی پر انسانی وجود کا تصّور کیا جا سکتا ہے لیکن انسانی معاشرے کو اپنے وجود اور خون سے تشکیل دینے والی عورت ابتدائے آفرینش سے ہی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ دوسروں کو وجود اور ذات بخشنے والی عورت کی اپنی کوئی پہچان اور ذات نہیں۔ اسے عملی طور پر مرد سے کمتر اور کمزور سمجھا جاتا ہے اور ہمارے جیسے معاشروں میں تو اس سے واضح امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اسے تعلیم، اچھی خوراک اور روزگار کے حوالے سے ہمیشہ پیچھے رکھا جاتا ہے اور مردوں کو ان پر ترجیح دی جاتی ہے۔ حالانکہ عورت کو خدانے شرف ِ تخلیق سے نوازا ہے۔ اسی کے زیرِ سایہ انسانی معاشرہ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل طے کرتا ہے۔ اس لیے صحت مند اولاد کو پیدا کرنے اور اسکی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے عورت کو نہ صرف بہتر خوراک بلکہ زیادہ سے زیادہ تعلیم سے بہر ہ مند کرنے اور اپنے خاندان کی معاشی بہتری کے لیے روزگار کے مواقع مہیا کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔
آج کل مہنگائی اور انسانی ضرورتوں میں اضافے کے بعد کوئی معاشرہ عورتوں کی معاشی اور سماجی شراکت داری کے بغیر ترقی کرنا تو کجا، اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لیکن افسوس ہمارے ہاں عورت کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان پر مغرب پرستی اور مذہبی اقدار سے بغاوت کا الزام لگا کر انہیں خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حالانکہ دنیا کے کسی مذہب نے عورت کو دوسرے درجے کا شہری قرار نہیں دیا۔ بلکہ بعض ہنگامی حالات میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو خصوصی مراعات اور تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اسلام میں بھی عورتوں کو اپنے والدین اور خاوند کی جائیداد میں وراثت کا حق دیا گیا ہے۔ اور ان کو خاندانی اور دیگر سماجی، سیاسی اور معاشی امور میں برابر کا حِصّہ دیا گیا ہے۔ جن گھروں میں فیصلہ سازی میں عورتوں کو شریک کیا جاتا ہے وہاں مسائل پر قابو پانے میں زیادہ کامیابی ہوتی ہے۔
عورت کے وجود اور اس کے با اختیار ہونے کا سب سے بڑا اظہار نکاح کے وقت اس کی زبانی اور تحریری رضا مندی اور حقِ طلاق سے مشروط کیا گیا ہے۔ اگر اسے حقِ طلاق نہ بھی دیا جائے تو وہ خلع کے ذریعے اس رشتے کو ختم کرنے کا حق اور فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ جو اس کے جسم پر اس کے غیر مشروط حق اور مرضی کا سب سے بڑا ثبوت ہے لیکن اگر کوئی عورت ’’ میرے جسم پر میرا اختیار یا مرضی ‘‘ کا مطالبہ کرے تو اسے کسی خود ساختہ تعصّب کا نشانہ بنا کر مطعون کیا جاتا ہے۔
یہ ایک بائیولوجیکل اور طبعی حقیقت ہے کہ ہارمونز اور دیگر طبعی عوامل کیوجہ سے جسمانی طور پر مرد عورتوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس بنا پر عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جائے جوکہ جنگل کا قانون ہے۔ بلکہ طاقتور کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنی جسمانی طاقت کو جسمانی طور پر کمزور عورت کے تحفظ اور اس کے حقوق کی فراہمی کے لیے استعمال کرے۔
کیونکہ مرد کو اسکی جسمانی طاقت بھی عورت کے جسم اور خون سے ملتی ہے اور اس پر سب سے زیادہ حق عورت کا ہی ہے کہ وہ اس کو جنم دینے والی عورت کی اس ’’ واحد کمزوری‘‘ کا تحفظ کرے۔ عورت زندگی کے کسی شعبے میں مرد سے کمتر نہیں بلکہ تعلیم وتربیت، ہنر، سائنس اور سیاست کے میدان میں عورت، مردوں سے آگے دکھائی دیتی ہے۔
کیونکہ عورت کے اندر ہمدردی اور محبت کے جذبات مردوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جن ممالک میں عورتوں کی حکومت ہے وہ معاشرتی اقدار، امن و امان اور ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ عورتوں کا عالمی دن مردوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی معاشرتی اور معاشی ترقی کے لیے عورتوں کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کریں اور اس کے وجود کو تسلیم کریں۔
میرا جسم ہے میری مرضی
مانگ نہیں، اعلان ہے سن لو!
اپنا حق اب لے کے رہے گی
عورت بھی انسان ہے سن لو!