عمران نامہ،آخری قسط دیکھئے آج شب

عمران نامہ کی ایک ماہ میں تین قسطیں کمال کی گزری ہیں۔ مرکزی کردار کے قتل کی سازش تک رچائی جاچکی اورآج سسپنس بھری آخری قسط کا دن ہے۔

اس سے پہلے فورتھ لاسٹ قسط کھڑکی توڑرش والی رہی تھی جس میں ایک نیک نام سے منسوب کردہ مشورہ، ڈائیلاگ کی صورت میں ادا کیا گیا اور پھر اسٹیج کے مہمان اداکار نے کمال خوبی سے باربار مختلف انداز سے اسی ڈائیلاگ کو ادا کرکے اپنی فنکاری کے جوہر دکھائے اور اپنے مداحوں سے خوب داد وتحسین وصول کی تھی، یہ الگ بات کہ چند گنے چنے سر پھرے بولے کہ جسے ہر بات پہ ملکہ حاصل تھا وہ پیٹ کا اتنا ہلکا کیسے نکلا؟

تھرڈ لاسٹ قسط تھریلر رہی کیونکہ اس میں ہیرو نے لاکھوں کے مجمع میں پراسرار انداز سے ایک خط لہرایا۔ معنی خیزانداز اپنایا، ملک کو ماضی کا جھروکا دکھلایا۔

سیکنڈ لاسٹ قسط سنسنی خیز تھی جس میں ستارہ ٹی وی پر جگمگایا، امریکا کا نام لے کر مسکرایا، پھر بات کو پلٹایا اور بیانیہ دہرایا۔

ناظرین کو یہ نازک موڑ حیرت انگیز لگا کیونکہ اس سپر ہیرو نے جن معاون اداکاروں کو اپنا نورتن بنایا تھا ان میں سے ایک ڈاکٹر منہ پھٹ امریکا پلٹ تھا،جسے مشکیزہ تھما کر پانی پلانے پر مامور کیا گیا ، وہ سقہ امریکا ہی کے نام پر دربار سے نکالا گیا، جسے جہان بھر کی سلامتی کا زمہ سونپ کر چوب داری دی گئی، وہ بھی امریکا سے ہی بلوایا گیا تھا،اور بھی کئی کردار تھے جنکے زلف دراز تھے اور وہ امریکا یا برطانیہ سے مہمان بلائے گئے تھے۔زیادہ تر وہ تھے جنہیں اسٹیج پر پہلی بار جگہ ملی تھی اور ڈرامہ پانچ سال چلنے کے بعد نئے سرے سے لانچ ہونےکی امید میں تھے۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ انوکھے لاڈلے کو جو پزیرائی امریکا اور برطانیہ میں رہنے والے اپنے ہم وطنوں میں ملتی تھی، اسکی نظیر نہیں ملتی تھی۔ واشنگٹن میں اسٹیج پروگرام کیا تو دروازہ توڑ، کھڑکی پھوڑ وہ رش ہوا کہ ایرے غیرے نتھو خیرے سمجھے اندر ورلڈکپ فٹبال میچ ہورہا ہے۔

سب کچھ بظاہر اچھا تھا، ہر کردار جچتا تھا، ہر مداح تھیٹر میں آنے سے پہلے سجتا تھا، پھر اچانک ڈرامے نے وہ کروٹ لی کہ خوشیوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹے، زمانے پہ سارے اعتبار ٹوٹے۔ پچھلے دو ماہ میں تو ایسا جوار بھاٹا آیا کہ ناظرین کی جان حلق تک آگئی، یوں سمجھیں روح نکلنے سےپہلے موت آگئی۔

ناظرین کی یہ صورت دیکھ کر اب معاون ہدایت کار نے دل پر پتھر رکھ کر بتادیا ہے کہ ڈرامے کی آخری قسط آج شب دکھائی جارہی ہے۔ یقینا اب کلائمکس ہوگا، آخری قسط یادگار ہوگی۔اس لیے جہاں چار سال تک کم و بیش ساری قسطیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھی گئی ہیں، قوم سے درخواست ہے کہ سڑکیں سنسان رہیں،گلیاں ویران رہیں، ٹی وی آن رہیں، سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور کمنٹس وائرل کرنے کے لیے( اپنے اپنے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مدنظر رکھتے ہوئے) موبائل فون چارج رہیں۔

یہ قسط اس لیے بھی اہم ہے کہ زنجیروں میں جکڑے ہمارے سیمسن کو اس بار اپنی پوری قوت کا مظاہرہ کرنا ہے، کھوئی ہوئی دیومالائی طاقت پھر سے پا کر زور بازو دکھانا ہے، کیا ہوا جو زمانہ کی ہوا بدلی تو بہت سے جاں نثار دشمن کی فوج سے جاملے؟ کیا ہوا جو قربت کا دم بھرنے والے اپنی راہوں میں کھو گئے؟ پنجابی کا مشہور شعر ہے کہ دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے – اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے۔

آخری قسطوں میں جو سرپرائز اور تُرپ کے پتوں کی بارش ہوئی ہے،اس نے ہر شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ڈرامے کا اختتام کیسے ہوگا؟مرکزی کردارکاانجام کیا ہو گا؟

چٹکلے چھوڑنے والوں نے بے پر کی اڑائی کہ ہمارا سیمسن دنیا تج کردے گا، اسٹیج چھوڑ کر بن باس لے لے گا مگر سیمسن کو طاقت پر ناز ہے، ساتھیوں کی فوج آدھی رہ جانے پر بھی سر ٹکرانے کو تیار ہے۔

ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہدایت کاروں نے جس افسانوی کردار کو تخلیق کرکے پتلے میں جان ڈالی تھی، وہ ہیبت ناک انداز سے اس کی روح قبض کیسے کریں؟ وہ کیا گُر ہو جس کا ڈنکا بج جائے، اداکار اسٹیج سے اترے تو داد وتحسین کا شور مچ جائے؟

ایک پہلو یہ بھی کہ ڈرامے میں جنہیں جادوگر، سنیاسی باوا، بونے، بدمعاش، لٹیرے، ماسی مصیبتے جیسے روپ ملے تھے، اچانک انہیں خطا سے پاک بندے، دور اندیش بزرگ ، دین ودنیا کی فلاح میں دن رات ڈوبے عالم وفاضل کیسے دکھا دیں؟ وہ کون سا سین ہو جس میں ہیرو کو ایسے زیرو کیاجائے کہ دنیا ہدایت کاروں کے چمتکار کی داد دیتی رہ جائے؟ قیدی جیلوں سے رہا ہو کر ایسے آئیں جیسے شادی میں باراتی آئیں۔ کوئی زر دے کوئی نواز دے، ڈرامے کی عاقبت سنوار دے۔

(آخری شب کے ہمسفر ناظرین براہ کرم نوٹ فرمالیں کہ پردہ کل گرے گا، ستائش اور افسوس کے لیے آنیوالے مرد و خواتین کے لیے قومی اسمبلی میں خاص اہتمام ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں