فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن )کا کہنا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کی راہ میں آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور آئینی بحران پر فافن نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور قبل ازوقت انتخابات کے انعقاد پرمتعدد آئینی، قانونی اور آپریشنل چیلنجز کی نشاندہی کی ہے۔
فافن کا کہنا ہےکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری ہونا ابھی باقی ہے جب کہ خواتین ووٹرز کی کم رجسٹریشن بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق کیے گئے اقدامات پر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔
فافن کو امید ہے کہ سپریم کورٹ اس پر جلد فیصلہ کرے گی کیوں کہ فیصلے میں تاخیر سے آئینی ڈیڈ لاک پیدا ہوسکتا ہے۔
فافن کے مطابق موجودہ صورت حال میں سیاسی جماعتوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو کنٹرول کریں تاکہ سیاسی اختلافات پرتشدد واقعات میں تبدیل نہ ہوجائیں۔
فافن کے مطابق قبل از وقت انتخابات کی راہ میں بہت سی آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں، سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی الیکشن کی قانونی حیثیت کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا مکمل ہونا ہوتا ہے جب کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری ہونا ابھی باقی ہے۔
قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگراں حکومت میں آئین کے آرٹیکل 213 (2بی) کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری غیرواضح ہے کیوں کہ اس کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو تقرری کا عمل شروع کرنا ہوتا ہے جس کے لیے صرف سینیٹرز پر مبنی خصوصی کمیٹی بنائی جاتی ہے۔
ایک اور آئینی اور قانونی مسئلہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی موجودہ حلقہ بندی 2017 کی مردم شماری کے ضمنی نتائج کی بنیاد پر ہے۔ اسی طرح الیکشنز ایکٹ، 2017 کی حالیہ ترامیم پر عمل درآمد جو کہ ای وی ایمز کے استعمال سے متعلق ہے، وہ بھی غیر واضح ہے۔
خواتین کی ووٹرز کی حیثیت سے کم رجسٹریشن بھی اہم مسئلہ ہے، تقریباً ایک کروڑ 13 لاکھ 70 ہزار خواتین اب بھی ووٹرز کی حیثیت سے غیررجسٹرڈ ہیں۔
اگر تین ماہ کے اندر انتخابات کا کہا جاتا ہے تو الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 39 کے تحت الیکٹورل رولز کو الیکشن پروگرام کے اعلان سے 30 روز قبل منجمد کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح لاکھوں خواتین ووٹ کے حق سے محروم ہوجائیں گی۔