۔۔۔۔۔ کسمساتی عوام ۔۔۔۔۔۔

تحریر عمران رشید

اللّٰہ تعالیٰ کے رنگ ہیں۔عزتیں بھی اسی کی طرف سے آتی ہیں،اور ذلتیں بھی اسی ذات برحق سے اجازت لے کر زمین پر اترتی ہیں ۔
کل تک مہنگائی کے بوجھ سے سسکتی اور بلکتی عوام سابق وزیر اعظم عمران خان کو سو سو کوسنے دیتے نظر آتی تھی ۔آج وہی عوام عمران خان کے حق میں دیوانہ وار نکل کھڑی ہوئی ہے۔انسانوں کا اک ہجوم بیکراں ہے ،جو سڑکوں چوکوں اور چوراہوں پر اکھٹا ہو گیا ہے.یہ وہ عزت ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے عمران خان کے مقدر میں لکھ دی ہے۔وجہ سادہ اور آسان ہے،سچ بیانی اور نیت کا اخلاص۔
میں ملکی اور غیر ملکی روز مرہ خبروں سے احتراز ہی کرتا ہوں۔
مگر ملک عزیز میں آجکل رونما ہونے والے واقعات سے صرف نظر نہ کر سکا۔
محسوس ہوا کہ کچھ بولنا یا لکھنا چاہئے کیونکہ یہ بھی کربلا کا ہی نمونہ ہے،ایک طرف مال و دولت کی ہوس اور اقربا پروری تو دوسری طرف حق و راستی کی دھائی ہے۔
باتیں بھی کئی ہیں اور حکائیتیں بھی بہت ہیں ۔
حکائیتوں سے جڑی چند باتیں ,،فاروق اعظم کے دور میں عین دوران جنگ دمشق آپ نے خالد بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کر کے ابو عبیدہ بن الجراح کو منصب پر فائز کر دیا،کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا کہ یہ وقت کے حکمران کا فیصلہ تھا۔قاضی کا منصب تو بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
رسولﷺ کا فرمان مبارک ہے”اللّٰہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے،جب تک وہ ظلم نہ کرے”.
اور امام ابو حنیفہ نے دور منصور اور امام شافعی نے دور مامون میں قاضی کے عہدوں کی پیشکش کو رد کر دیا تھا کہ عدل گستری بہت نازک کام ہے۔
ہمارے ملک میں عدلیہ اور افواج کی کیسی عزت افزائی ہو رہی ہے۔
جج اور جنرل دونوں کو عوام آڑھے ہاتھوں لے رہے ہیں ۔
کہیں آواز خلق نقارہ خدا تو نہیں ۔ایسا کیا کردیا ان ججوں اور جرنیلوں نے کہ عوام الناس غضبناک ہو کر سراپا احتجاج بن گئے ہیں نظریاتی پسند اور نا پسند اپنی جگہ مگر حق بات کرنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہئے ،دو گروہو ں کی جنگ میں اپنا قبلہ متعین کر لینا چاہئے ۔کل اللّٰہ کے حضور حاضر ہو کے معاشرے میں اپنا کردار اور رخ حیات بھی تو بتانا ہے ناں۔ سورہ مائدہ میں ارشاد ربانی ہے.
“انصاف کی گواہی دینے والے بن جاوٴ ،کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم نا انصافی کرو۔
انصاف سے کام لیا کرو کہ یہی طریقہ تقویٰ سے قریب تر ہے”
یہ تمام عمران مخالف گروپ بشمول نام نہاد اور دین فروش علماء ،ناحق بات پہ اکھٹے ہو گئے ہیں۔
میرے کچھ بہی خواہ اور ہم جماعت اکثر کچھ دیگر ہم جماعتوں کا گلہ نما زکر کرتے رہتے ہیں کہ وہ لوگ لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمایت سے باز نہیں آتے۔
کچھ ساجد میر اور فضل الرحمن سے بھی نالاں رہتے ہیں۔
عرض یہ ہے کہ اس کا جواب تو ان فقہوں کے گلی محلوں کے مساجد کے اماموں سے بھی پوچھنا چاہئے کہ آپ کے یہ دینی سالار کیا کرتے پھر رہے ہیں ۔
ثابت شدہ خائن لوگوں کا ساتھ دینا اور وہ بھی دائمی ؟اسلام کے دستور عمل کی ایسی کونسی لازمی شق ہے،جس کو یہ لوگ اللّٰہ کی رسی سمجھ کر مظبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔
جز بز ہونے لگوں تو کانوں میں قرآن کی آیت تمام گتھیاں سلجھاتی ترنم گھولتی ہے۔کیسی الوہی،ٹھوس اور جاندار آیت ہے۔
” صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ”
طبقہ اشرافیہ کو انیس سو اٹھتر کا ایرانی انقلاب ذہن میں رکھنا چاہئے کہ عوامی ریلہ یہ رخ بھی اختیار کر لیتا ہے۔اور اٹھارویں صدی میں رونما ہونے اور دس سالوں پہ محیط فرانسیسی انقلاب میں شاہی خاندان کا حال بھی دماغوں میں تازہ رکھیں اور بیسویں صدی کے اوائل میں زار روس کے خاندان کا انجام بھی پیش نظر رہے تو بہتر ہو گا-
وہ نہ ہو اس جیسی کوئی تاریخ یہاں بھی دہرائی جائے۔تنگ آمد بجنگ آمد نہ شروع ہو جائے۔
عمران نے لوگوں کو کچھ شعور دیا اور شعور وآگہی ہمیشہ طاقت اور عزم پہ ختم ہوتی ہے.
یہ طاقت کہیں آپ کی دہلیزیں اور چوکھٹیں ہی نہ اکھاڑ لے جائے ۔
یاد رہے قومی حمئیت اور دینی غیرت سب سے بڑھ کے ہوا کرتی ہے۔
ہمیشہ حق اور انصاف کی پشت پناہی کی عادت بنا لیں تو اس شعر کی عملی تفسیر ،آنے والے وقتوں میں آپ خود دیکھ لیں گے۔

غیرت ہے بڑی چیز،جہان تگ و دو میں”

پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا”

پھر ہمارے فیصلوں کی نظیر دنیا میں ہو گی،اور اللّٰہ باوجوہ ناطاقتی اور زنگ آلود تلواروں کے،ہماری شمشیروں کو صیقل،کاٹ دار اور خارا شگاف کر دے گا۔
اس کے ساتھ پھر آپ ڈالروں کی جمع تفریق کی مشقت کی احتیاج سے بھی آزاد ہو جائیں گے۔
شرط صرف حق بولنے،حق لکھنے اور حق تولنے کی ہے۔

“لکھتے رہے جنوں کی حکائت خونچکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے”

( تحریر ۔۔۔ عمران رشید )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں