وفاقی حکومت نے توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بنا لیا ہے جس کے تحت ایل این جی ٹرمینل آپریٹرز کو اضافی صلاحیت استعمال کرنے کے لیے طویل مدتی معاہدوں پر دستخط کی اجازت ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن اور وزیر مملکت برائے پیٹرولیم امور کے ساتھ میاں محمد شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت نے ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت ایل این جی ٹرمینلز آپریٹرز کو ایل این جی کی مزید درآمد کے لیے اپنی اضافی صلاحیت کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی اور انہیں بی ٹی بی (کاروبار سے کاروبار) کی بنیاد پر طویل ایل این جی سپلائی کے معاہدوں پر دستخط کرنے کی بھی اجازت ہوگی۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے پی جی پی ایل ٹرمینل میں خریدی گئی 600 ایم ایم سی ایف ڈی کی کم استعمال شدہ صلاحیت میں سے کچھ نجی شعبے کو بھی دی جائے گی۔
حکومت نے گوادر ورچوئل پائپ لائن ایل این جی پروجیکٹ کو آپریشنل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جسے پچھلی حکومت کے عہدیداروں نے اپنے مبینہ مفادات کی وجہ سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔
اگر یہ منصوبہ آپریشنل ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف گوادر کی توانائی کی ضروریات کو پورا کر سکے گا بلکہ ملک کے ان علاقوں کی بھی ضروریات پورا کرسکے گا جہاں پائپ گیس دستیاب نہیں ہے۔
اس کے علاوہ گوادر کو ایل این جی اور آئل ہب بنانے کا بھی ہدف بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے لبرل اور مرکوز پالیسیوں کا اعلان کیا جائے گا۔
حکومت نے ایل این جی کی اسپاٹ پروکیورمنٹ پر انحصار کم کرنے کے لیے مزید جی ٹی جی ایل این جی درآمدی معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اعلیٰ حکومتی رہنما شاہد خاقان عباسی نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ حکومت ایل این جی پیدا کرنے والے ملک کے ساتھ مزید جی ٹی جی معاہدے کرے گی تاکہ ملک میں سستی قیمتوں پر ایل این جی کی پائیدار فراہمی ہو سکے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حویلی بہادر شاہ، بھکی، بلوکی اور تریموں جھنگ میں واقع چار آر ایل این جی پر مبنی پاور پلانٹس کو 700 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ دلیل دیتے ہوئے ڈسکوز کی نجکاری کا بھی کہا کہ پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کے خطرے کو کم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔