پاکستان میں 40 لاکھ جوڑے بے اولاد ہیں، بے اولادی کا بڑا سبب مرد ہیں: ماہرین

پاکستان میں تقریباً چالیس لاکھ جوڑے بے اولاد ہیں اور بے اولادی کا زیادہ تر سبب مردوں کی بیماریاں اور ان کا طرز زندگی ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں عورتوں کو بے اولادی کا سبب قرار دے کر انہیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار مقامی اور بین الاقوامی ماہرین صحت نے جمعے کے روز سوات کے علاقے مالم جبہ میں شروع ہونے والی پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کی آٹھویں مڈسمر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تین روزہ بین الاقوامی میں اینڈوکرائین کانفرنس سے پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ امریکا برطانیہ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک سے ماہرین شرکت کر رہے ہیں اور مختلف بیماریوں بشمول تولیدی صحت اور ذیابطیس کے حوالے سے اپنی تحقیق پیش کر رہے ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکا میں مقیم پاکستانی اینڈو کرائنالوجسٹ ڈاکٹر جاوید اختر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ جوڑے بے اولاد ہیں اور اس کا بنیادی سبب مردوں میں پائی جانے والی ہارمونل بیماریاں اور ان کا طرز زندگی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مردوں کی بیماریاں اور ان کا طرز زندگی تقریباً چالیس سے پچاس فیصد جوڑوں میں بے اولادی کا سبب بنتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان اور چند دیگر ممالک میں عورتوں کو بے اولادی کا سبب قرار دے کر انہیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مردوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ھونے کا ایک بڑا سبب مردانہ ہارمون ٹیسٹی سٹیرون کی کمی ہے جس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ موٹاپا بھی ہے، اس کے علاوہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی، منشیات کا استعمال مردوں کو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بے اولاد جوڑوں کو اینڈوکرائنالوجسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ اب نئی ادویات اور جدید طریقہ علاج سے تقریباً 70 فیصد جوڑے اولاد کی نعمت حاصل کر سکتے ہیں۔

پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر اور معروف اینڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر ابرار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذیابطیس کے حوالے سے ایمرجنسی لگا دینے کا وقت آگیا ہے، ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ پاکستان کے تمام ڈاکٹر مل کر بھی ان کا علاج نہیں کر سکتے، ذیابطیس سے نمٹنے کا واحد حل اس کے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔

ڈاکٹر ابرار احمد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ڈاکٹروں کی تربیت سمیت عوامی آگاہی کے پروگرام شروع کر رہی ہے لیکن اسے میڈیا اور حکومت کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی نے خیبر پختونخوا حکومت سمیت مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ ذیابطیس کے متعلق آگاہی پھیلانے کی مہمات شروع کردی ہے لیکن اس میڈیا کے سپورٹ کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو اس وبا بچایا جا سکے۔

اس کے علاوہ جرمن ماہر امراض ذیابطیس ڈاکٹر پیٹر شوارز کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو دن میں تقریباً دس ہزار قدم ضرور اٹھانے چاہیے تاکہ وہ ذیابطیس سمیت ذہنی مسائل، دل کی بیماریوں، گردوں کی خرابی سمیت دیگر بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ذیابطیس میں مبتلا افراد اگر روزانہ 11 ہزار قدم چلیں تو دواؤں کی نسبت ان کی شوگر بہت بہتر طریقے سے کنٹرول ہو سکتی ہے۔

پروفیسر پیٹر شوارز نے اس موقع پر عوام کو کولڈ ڈرنکس اور مصنوعی میٹھے مشروبات ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص ایک کولڈ ڈرنک ایک سال تک پیتا رہتا ہے تو اسے شوگر کی بیماری سے کوئی نہیں بچا سکتا، پاکستان میں بھی حکومت کو مصنوعی میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھا کر انہیں عوام کی پہنچ سے دور کر دینا چاہیے تاکہ وہ شوگر سمیت دیگر بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔

کانفرنس کے پہلے روز برطانیہ سے آئے ہوئے ماہر ڈاکٹر اسد رحیم، ڈاکٹر سمیرہ جبین، ڈاکٹر علی جاوا، سید عباس رضا سمیت نیپال اور سری لنکا کے ماہرین نے خطاب کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں