اگلے مالی سال کے لیے بجٹ کا حجم 9500 ارب روپے کے قریب ہو گا اور شرح نمو 5 فیصد رکھی جائے گی جو رواں سال 6 فیصد رہی۔
حکومت نے بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے اور ان تجاویز پر آئی ایم سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے تاہم قابل ٹیکس آمدن کی حد طے کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق معاملات ابھی طے ہونا باقی ہیں۔
بجٹ میں قرض اور قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے 21 ارب ڈالر مختص کیے جا رہے ہیں جبکہ بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے 3500 ارب اور مقامی قرض کی ادائیگی کے لیے 700 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
حکومت اگلے مالی سال کے دوران مختلف ذرائع سے 4600 ارب قرض لے گی جبکہ سبسڈی کی مد میں 650 ارب روپے رکھے جانے کی تجویزہے۔ بجٹ میں پنشن کی ادائیگی کے لیے 530 ارب اور سول حکومت چلانے کے لیے 550 ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 800 ارب روپے ہو گا جس میں 100 ارب روپے کا پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کا پروگرام ہے۔
اگلے سال کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 5 فیصد سے کم تجویز کیا جا رہا ہے جو 3800 ارب روپے کے برابر بنتا ہے۔
آئندہ مالی سال 41 ارب ڈالر کے فنڈز کی ضرورت ہو گی، 21 ارب ملکی و غیر ملکی قرض کی ادائیگی کے لیے، 12 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے، 8 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے درکار ہوں گے۔
ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 7 ہزار 255 ارب روپے تجویز کیا جا رہا ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو وصولی کا ہدف 2000 ارب روپے کے لگ بھگ رکھا جا رہا ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مجموعی آمدن 9000 ارب روپے تجویز کی جا رہی ہے، وفاق کو کل آمدن سے 4900 ارب روپے اور صوبو ں کو گرانٹس اور این ایف سی پول سے 4100 ارب روپے منتقل کیے جائیں گے۔