پاکستان میں شازو نادر ہی ہوتا ہے کہ کسی ملک کا نیا قونصل جنرل کراچی میں تعیناتی کے ساتھ ہی پریس کانفرنس کرے لیکن معاملات ہی ایسے گرم تھے کہ روس کے کراچی میں نئے قونصلر جنرل آندرے وکتورووچ فیدوروف نے آتے ہی پریس کانفرنس بلالی، ورنہ روسی قونصلر جنرل عموماً سال کے آخر میں پریس کانفرنس کرتے ہیں جس میں وہ پاک روس تعلقات، مستقبل میں پیشرفت کے امکانات اور عالمی صورتحال پر بات کرتے ہیں۔
آندرے فیدوروف کی جانب سے پریس کانفرنس ایسے وقت کی گئی جب سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاک امریکا روس تعلقات کے بارے میں ایک بیانیہ بعض افراد کو متاثر کیے ہوئے ہے، اس لیے صحافیوں کی بڑی تعداد وقت سے پہلے ہی آڈیٹوریم میں جمع تھی۔
ان میں سے زیادہ تر یہ جاننا چاہتے تھے کہ عمران خان حکومت نے روس سے تیل کے لیے معاہدہ کیا تھا یا نہیں اور یہ کہ پاک روس تعلقات کی اب نوعیت کیا ہے؟
آندرے وکتورووچ فیدوروف نے بات چیت کے لیے غیر رسمی انداز اپنایا اور امید کا دامن تھامے رہے مگر اہم سوالوں پر ڈپلومیسی غالب آئی اور معنی خیز انداز میں بات کی۔
فیدوروف چونکہ چند برس پہلے کراچی میں ڈپٹی قونصلر جنرل رہ چکے ہیں، اس لیے انہیں صحافیوں کے کئی چہرے شناسا نظر آئے۔ مسکراتے ہوئے فیدوروف نے کہا کہ وہ کسی کے لیے خطرہ نہیں، روس کس کے لیے خطرہ ہے؟ یہ بھی اپنے تئیں انہوں نے جتا دیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی روس کے صدر ولادیمرپیوٹن سے فروری میں ہوئی ملاقات اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے پچھلے برس دورہ اسلام آباد کا حوالہ دیتے ہوئے پاک روس تعلق کو انہوں نے مضبوط تر قرار دیا۔
فیدوروف نے بتایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے صدر پیوٹن سے ملاقات میں علاقائی امن اور استحکام کو درپیش چیلنجز اجاگر کیے تھے اور زور دیا تھا کہ علاقائی امن برقرار رکھنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔
فیدوروف کے بقول عمران خان نے یہ امید بھی ظاہر کی تھی کہ باہمی اعتماد اور دوستانہ تعلقات مختلف شعبوں میں وسیع تر اور طویل البنیاد تعاون کا سبب بنیں گے۔
فیدوروف نے یہ تو کہا کہ عمران خان نے روس سے تیل خریدنے کی بات کی تھی مگر یہ نہیں بتایا کہ اس ضمن میں کوئی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط بھی ہوئے تھے یا نہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ روس کے تعاون سے نارتھ ساؤتھ یعنی کراچی لاہور گیس پائپ لائن منصوبہ جسے اب پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن کہا جاتا ہے وہ شروع کرنے کے لیے عمران حکومت ٹھوس قدم کیوں نہ اٹھاسکی تھی۔
فیدوروف نے بتایا کہ 2021 میں پاک روس تجارتی حجم محض 697 ملین ڈالر رہا جس کی ایک وجہ کورونا وبا بھی تھی، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پاکستان میں تیار کیے جانیوالے سرجیکل آلات، چمڑے کی مصنوعات اور کھیلوں کے سامان کو روس ایکسپورٹ کرنے کے وسیع مواقع ہیں جبکہ زرعی اجناس اور پیٹرولیم مصنوعات پاکستان لائی جاسکتی ہیں۔ ان کے نزدیک ماہرین کی یہ بات محض بہانہ ہے کہ روسی تیل پاکستان میں استعمال کے قابل نہیں بنایا جاسکتا۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماسکو پر عائد مغربی پابندیوں کے سبب کینسر کے خلاف روس میں تیار دوا خریدنا بھی پاکستان کے لیے مشکل ہے، فیدوروف نے توقع ظاہر کی چونکہ 2015 میں ن لیگ ہی کی حکومت نے پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ کے پہلے سمجھوتے پر دستخط کیے تھے، اس لیے شہباز حکومت اسے عملی جامہ بھی پہنالے گی۔
65 ارب ڈالر سرمایہ کاری سے ابھرنے والے سی پیک منصوبے کے خصوصی اقتصادی زون میں روس بھی شریک ہونے کا خواہش مند نظرآیا۔ خاص طورپر توانائی اور مواصلات کے منصوبوں میں روس سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ فرانس اور جاپان سمیت اور بھی کئی ممالک اس گرینڈ منصوبے میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں مگر ابھی کسی اور کی لاٹری بھی نہیں نکلی۔
چین سے پہلے پاکستان میں ایک اہم منصوبہ اسٹیل ملز کی صورت میں روس بھی شروع کرچکا ہے تاہم کئی وجوہات کی بنا پر یہ مل اب بدحالی کا شکار ہے اور اس کی مشینوں کو زنگ لگ چکا ہے، فیدروف نے بتایا کہ نجکاری ہوئی تو روسی کمپنیاں اسٹیل ملز کو جدید انداز سے بحال کرنے کی خواہاں ہوں گی۔
دو گھنٹے پر محیط سوال جواب کے سیشن میں فیدوروف نے جب بھی پاک روس تعلقات کا ذکر کیا تو کہا کہ پچھلے چند برسوں میں یہ تعلقات مضبوط تر ہوئے ہیں اورپاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات کا مستقبل روشن ہے۔ یہ بھی کہ ممالک اگر تجارت میں سنجیدہ ہوں تو روس پر عائد پابندیوں سے بچ نکلنے کے طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں، روپے اور روبل میں تجارت ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
پریس کانفرنس اختتام کو پہنچنے کا مرحلہ آیا تو قونصلر جنرل سے میں نے کہا کہ ان کی بعض باتیں زمینی حقائق سے دور ہیں اور یہ کہ حالات سے وہ کچھ زیادہ پر امید دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات میں نے اس لیے بھی کہی کیونکہ یوکرین جنگ کے ممکنہ اختتام سے متعلق ایک سوال پر قونصلر جنرل کہہ چکے تھے کہ بلآخر بات چیت سے مسئلہ حل کرلیا جائے گا، فوری امن معاہدہ اس لیے نہیں ہو پا رہا کہ کسی کو اس جنگ کا سزاوار قرار دینا پڑے گا۔
میں نے بلا تامل کہا کہ جہاں تک یوکرین جنگ کا تعلق ہے تو جس انداز سے شہر خالی کیے گئے ہیں اور جدید ترین اسلحہ یوکرین لایا جا رہا ہے، اسے امن معاہدوں نہیں، طویل جنگ کی شروعات تصور کیا جانا چاہیے۔ اس بات کا نکتہ آغاز بھی کہ یوکرین اب تاریخ میں شاید کبھی اس طرح وجود نہ رکھ سکے جیسا 24 فروری سے پہلے تھا۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ یوکرین کی آبادی کا وہ حصہ جہاں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے، وہ علیحدہ وجود اختیار کر کے ماسکو نواز بن جائے گا جبکہ دوسرا اور نسبتاً بڑا حصہ خود کو یورپی یونین کا حصہ بنانے میں عافیت ڈھونڈے گا۔
قونصلر جنرل فیدوروف جو نیویارک مشن میں بھی کام کر چکےہیں، اب تک بظاہر غیر رسمی انداز اپنائے ہوئے تھے، اب منجھے ہوئے سفارتکار کے طور پر سامنے آئے اور اشارتاً کہا کہ یوکرین تقسیم ہوا تواس کے حصے بخرے ہو جائیں گے، پولینڈ بھی کہیں کچھ حصہ نہ لے اڑے۔ ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ یوکرین کی جنگ روس نے نہیں، مغربی ممالک نے شروع کی ہے اور یہ بھی کہ ریچھ کو جنگل سے نکالنے کے 100 طریقے ہیں، واپس بھیجنے کا ایک بھی نہیں، ریچھ کو باہر نکالا ہے تو اب سامنا کرو۔