شہباز اور حمزہ کی دوبارہ گرفتاری کی کوشش ایف آئی اے کی بدنیتی ظاہر کرتی ہے: عدالت

لاہور: اسپیشل کورٹ سینٹرل نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں ضمانتوں کی توثیق کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

22 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر ضمانت کے غلط استعمال کا الزام نہیں، 2 ،3 پیشیوں کے سوا شہباز شریف مسلسل پیش ہوتے رہے ہیں، تفتیش مکمل اور چالان جمع ہے، اس لیے گرفتاری سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

فیصلے کے مطابق 16 ارب کے مقابلے میں صرف 6 کروڑ 70 لاکھ روپے اکاؤنٹس میں جمع ہونے کا ذکر ہے، پیسے جمع کرانے والے 64 افراد میں کسی نے شہباز شریف اور حمزہ کا نام نہیں لیا جب کہ ان کے بیانات میں رشوت اور کک بیک کا بھی ذکرنہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیس میں کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت کے الزامات پر ابھی کوئی شہادت میسر نہیں، ان الزامات پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے، شہباز شریف اور حمزہ جیل میں ہی شامل تفتیش ہوگئے تھے، 18 دسمبر 2020 اور 8 جنوری 2021 کو ان سے دو بار تفتیش ہوئی جس کے بعد ایف آئی اے 5 ماہ خاموش رہی، پراسیکیوشن یہ ثابت نہیں کر سکی کہ اکاؤنٹس حمزہ شہباز کے کہنے پر کھولے گئے۔

فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ مقدمے میں 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام اور چالان میں 16 ارب روپے کا ذکر ہے، مشتاق چینی والا کےخفیہ لیجر ریکارڈ کو تفتیش کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا، مرکزی ملزمان کی ضمانت کے بعد شریک ملزمان کو گرفتار کرنے سے مقصد پورا نہیں ہو گا، اس لیے ان کی ضمانت کی بھی توثیق کی جاتی ہے، تحریری فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز سطحی نوعیت کی ہیں جن کا ٹرائل پر اثر نہیں ہوگا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے ) نیب کیسز میں رہائی کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو دوبارہ گرفتار کرنا چاہتی تھی جس سے بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں