پاکستان میں جب بھی سیلاب یا زلزلہ آتا ہے یا کوئی بھی قدرتی آفت آتی ہے ، تب دو چیزیں زیادہ واضح ہو کر دنیا کے سامنے آتی ہیں ۔ ایک تو ریاست کی نااہلی اور دوسری بے پناہ غربت ۔
اس سال بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی نے 2010میں ہونے والی تباہی کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔ قدرتی آفات سے دنیا میں ہر جگہ نقصانات ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد جس طرح ریاست اور حکومتوں کو اپنا کام کرنا چاہئے ، وہ پاکستان میں نہیں ہوتا یا وہ کرنے کی اہل نہیں ہوتیں ۔ پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں بن سکا، جو قدرتی آفات سے نمٹنے کی کم از کم اتنی صلاحیت رکھتا ہو، جتنی دنیا کے دیگر ترقی پزیر ملکوں کے اداروں میں ہے ۔ قیامِ پاکستان کے 60 سال بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے ) کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا، جس کا کام قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنا ہے لیکن اس ادارے کے پاس بھی نہ تو جدید ٹیکنالوجی اور آلات ہیں اور نہ ہی مطلوبہ وسائل ہیں ۔ جو وسائل اسے مہیا کئے جاتے ہیں ، اس کے استعمال کے اسکینڈلز سامنے آچکے ہیں۔
ادارے کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا گیا ۔ صوبائی سطح پر کہنے کو تو پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز موجود ہیں لیکن ان کے کام بھی روایتی طور پر صوبائی محکمہ ریونیو اینڈ ریلیف کر رہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ڈیز اسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو ضلعی سطح پر مضبوط کیا جاتا اور ریسکیو اینڈ ریلیف کے سارے کام اس سے لیے جاتے ۔ کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیےان کے پاس سارے وسائل ہوتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ سویلین ،ریاستی اور حکومتی اداروں میں وہ صلاحیت ہی پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ لوگوں کی بروقت مدد کو پہنچ سکیں ۔ صرف افواجِ پاکستان لوگوں کی مدد کو اس وقت پہنچتی ہیں ، جب حکومت انہیں بلائے ۔ افواج میں بھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا باقاعدہ کوئی ادارہ نہیں ہے ۔
لوئر کوہستان میں جو دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہوا ، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ہماری ریاست میں لوگوں کی فوری مدد کی اہلیت ہی نہیں ہے ۔ پانچ دوست ایک سیلابی ریلے میں تین گھنٹے تک پھنسے رہے ۔ مقامی لوگ انہیں نکالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ ان کی ویڈیوز وائرل ہوئیں ۔ حکام سے انہیں ریسکیو کرنے کی درخواست کی جاتی رہی ۔ پشاور یا گلگت سے ایک گھنٹے میں ہیلی کاپٹر پہنچ سکتا تھا اور ان پانچ نوجوانوں کی زندگیاں بچ سکتی تھیں لیکن وہ تین گھنٹے بعد اجل کا شکار ہو گئے ۔ اسی طرح متاثرین کی درد ناک کہانیاں سامنے آ رہی ہیں ، جن تک کوئی مدد نہیں پہنچ سکی اور وہ بھوک ، بیماریوں اور موسم کے رحم و کرم پر ہیں ۔
پاکستان میں فلڈ کمیشن بنا ہوا ہے ، جس نے چوتھا فلڈ پروٹیکشن پلان دیا ہے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ۔ تقریباً ہر دس سال بعد بڑا فلڈ آتا ہے اور ہر بار پہلے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔ فلڈ سے زیادہ نقصان پہاڑی علاقوں یا پہاڑوں کے دامن میں واقع میدانی علاقوں میں ہوتا ہے ۔ پہاڑی ندی نالوں کے اپنے مقررہ راستے ہیں ۔ ان کے اوور فلو سے جو سیلاب آتے ہیں ، ان کے بھی مقررہ راستے ہیں ۔ دریائوں میں پانی زیادہ ہونے سے سیلاب آتے ہیں ۔ ان سیلابوں کے بھی راستے بنے ہوئے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان سیلابوں کو اسی طرح کنٹرول نہیں کیا جا سکا ، جس طرح دنیا کے دیگر ممالک نے کیا؟ انہوں نے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کےلیے ڈیم بنائے ۔
سیلاب کے راستوں میں آبادیاں قائم نہیں ہونے دیں اور جو آبادیاں بنیں ، انہیں بھی دوسرے علاقوں میں منتقل کر دیا۔ ہماری ہاں صرف پانی کا راستہ روکنے کے لیے بند بنائے جاتے ہیں ، جو سیلابوں میں بہہ جاتے ہیں ۔ ان بندوں کی تعمیر و مرمت میں اربوں روپے کی خورد برد ہوتی ہے ۔ اس طرح فلڈ مینجمنٹ نہیں ہوتی ۔
سیلاب سے متاثرہ لوگ جب شاہراہوں ، حکومتی یا خیراتی اداروں کے کیمپس میں پناہ لیتے ہیں تو انہیں دیکھ کر حقیقت میں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کس قدر غربت ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کے وہ سارے دعوے غلط ثابت ہو جاتے ہیں کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے ۔ متاثرین کی حالتِ زار بتا رہی ہوتی ہے کہ غربت نے انہیں پوری طرح جکڑ رکھا ہے ۔ ان کا مسئلہ صرف روٹی ہوتا ہے ۔
جب ان میں راشن یا خوراک تقسیم کی جارہی ہوتی ہے تو اس وقت کے مناظر دیکھنے والے ہوتے ہیں ۔ ہم نے تو دور دراز کے علاقوں میں غربت و افلاس کا صحیح ادراک ہی نہیں کیا ۔ حکمران دعوے کرتے ہیں کہ ہم متاثرین کو واپس ان کے گھروں میں آباد کریں گے اور انہیں بحال کریں گے ۔ لیکن بہت سے متاثرین اپنے گھروں میں واپسی یا بحالی نہیں چاہتے کیوں کہ وہاں صرف بھوک و افلاس ہے۔
وہ امداد پر ہی انحصار کرنا چاہتے ہیں اور امدادی کیمپوں میں ہی رہنا چاہتے ہیں ۔ 2010ء کے متاثرین ابھی کراچی کی موٹروے پر جھونپڑیوں میں موجود ہیں ۔ انہیں نہ تو واپس ان کے گھر میں آباد کیا گیا ہے اور نہ ہی کراچی میں ان کے باعزت روزگار اور رہائش کا انتظام کیا گیا ہے ۔ جو کام ریاست اور حکمرانوں کو کرناتھا ، وہ اب مذہبی تنظیمیں اور خیراتی ادارے کر رہے ہیں ۔ سیاسی خلاوہ پر کر رہے ہیں ۔ پانی کے سیلاب کی تباہ کاریاں کسی او ر سیلاب کو جنم دے سکتی ہیں ، جسے روکنے کی صلاحیت ہماری موجودہ حکمران اشرافیہ میں تو بالکل نہیں ہے ۔