سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہےکہ کیا عمران خان اس کمیشن کے سامنے پیش ہو کراس کو بتائیں گے کہ انہیں ارشد شریف کے خلاف ہونے والی سازش کا کیسے پتا چلا، یہ ایک اہم سوال ہے، یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کو اس سازش کا پتا تھا تو حکومت کو اس سازش کا پتا تھا یا نہیں پتا تھا اور وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے ارشد شریف پاکستان سے باہر جانے پر مجبور ہوئے۔
حامد میر نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پشاور میں ایک وکلاء کنونشن میں تقریر کی، اس تقریر میں انہوں نے بہت اہم باتیں کیں، سب سے اہم اور سنسنی خیز دعویٰ ان کی طرف سے یہ سامنے آیا کہ سینئر صحافی ارشد شریف کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں انہیں پہلے سے پتا تھا اور انہوں نے ہی ارشد شریف کو یہ کہا تھا کہ آپ پاکستان سے باہر چلے جائیں، یہ ایک بہت ہی اہم بات عمران خان نے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نےارشد شریف کے قتل کی انکوائری کیلئے کمیشن بنانے کا اعلان کردیا ہے، اب کیا عمران خان اس کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اس کو بتائیں گے کہ انہیں ارشد شریف کے خلاف ہونے والی سازش کا کیسے پتا چلا، یہ ایک اہم سوال ہے، یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کو اس سازش کا پتا تھا تو حکومت کو اس سازش کا پتا تھا یا نہیں پتا تھا اور وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے ارشد شریف پاکستان سے باہر جانے پر مجبور ہوئے۔
حامد میرکاکہنا تھاعمران خان نے کہا ہے کہ مجھے انفارمیشن آئی کہ ارشد شریف کو مار دیا جائے گا اور میں نے انہیں کہا کہ آپ پاکستان سے باہر چلے جائیں، یہ بڑی اہم بات کی ہے، اس قسم کی کوئی انفارمیشن وفاقی حکومت کے علم میں تھی؟
اس پر رانا ثنا اللہ نے کہاکہ عمران خان اس قسم کی آوارہ گفتگو ، لوز ٹاک کرنے کے ماہر ہیں، ان کے جو منہ میں آئے، جوکوئی ان کے کان میں کہہ دے اسی طرح سے یہ بات کو آگے کرنا شروع کردیتے ہیں اور اتنا جھوٹ بولتے ہیں، اب یہ جو انہوں نے سواتی صاحب والی بات کی ہے یہ بات بھی غلط ہے، اس سے پہلے شہباز گل کے بارے میں جو انہوں نے جنسی تشدد کا ڈرامہ رچایا تھا وہ بھی غلط تھا، اس کے بعد الیکٹرک شاک پر چلے گئے، اب یہ جو ارشد شریف کے بارے میں بات کررہے ہیں اگر ان کے پاس کوئی انفارمیشن تھی تو انہوں نے اس وقت اس کو آن ایئر کیوں نہیں کیا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اب عمران خان شہید کی لاش کو اپنی گھٹیا سیاست کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں، میں تو کہوں گا کہ یہ بندہ ذمہ دار ہے ارشد شریف کی شہادت کا اور ان حالات کا جن میں ارشد شریف اس انتہائی افسوسناک اور المناک انجام سے دوچار ہوا، آپ مجھے بتائیں کہ ارشد شریف جس بھی چینل پر اپنا پروگرام کرتے تھے ان کی ایک فالوونگ تھی، ان کی ایک حیثیت اور اہمیت تھی کیا ان کے پروگرام کرنے سے اس چینل کو بزنس نہیں ملتا تھا؟ اس کی اہمیت نہیں تھی؟ انہوں نے جو بھی موقف اپنایا بھلے کسی کے خلاف اپنایا یا کسی کے حق میں اپنایا لیکن جس موقف کو وہ اپنائے ہوئے تھے اس کی وجہ سے انہیں سیاسی فائدہ نہیں ملا؟
وزیر داخلہ نے کہا کہ آپ مجھے بتائیں کہ جب ان پر برا وقت آیا تو اس چینل نے اور اس جماعت نے کیا ان کاخیال کیا؟ یہ کس طرح سے ان کے ساتھ کھڑے ہوئے، وہ بندہ دبئی میں اسٹے نہیں کرسکا تو کیا یہ اس کی مدد نہیں کرسکتے تھے؟ یہ کیا کسی اچھے ملک میں اس کیلئے اسٹے یا ویزہ ارینج نہیں کرسکتے تھے، اسے کیوں جانا پڑا ایسے ملک میں جہاں پر سیفٹی کے معیار بہت کمپرومائزڈ ہیں، وہ ایک خطرناک ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔
حامد میر نے کہاکہ ارشد شریف کی والدہ کاسوال ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے ارشد شریف پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوا؟ وہ کون تھا جس نے ارشد شریف پر پاکستان میں جگہ جگہ مقدمات قائم کیے؟ وہ کون تھا جو ارشد شریف کو دھمکیاں دے رہا تھا؟ یہ وہ سوال ہے جو اس کی والدہ نے مجھ سے پوچھا، آپ ملک کے وزیرداخلہ ہیں یہ بتادیں کہ ارشد شریف کیخلاف وہ کون سی اتھارٹی تھی جو پاکستان کے مختلف شہروں میں اس پر بغاوت کے مقدمے بھی قائم کررہی تھی۔
وزیر داخلہ راناثنااللہ کاکہنا تھا کہ وزیراعظم پاکستان نے جو کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس کی مدت اور ٹی او آرز سامنے نہیں آئے، جب یہ آرڈرز ہوں گے یا نوٹیفکیشن ہوگا اس میں یقیناً اس کمیشن کی مدت کا تعین ہوگا، یہ کوئی30دن سے زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ جیسے جیسے یہ عرصہ بڑھے گا لوگوں کو افواہیں پھیلانے اور گمراہ کن پراپیگنڈہ کرنے، تقاریر کرنے کا موقع ملے گا ، اس لیے میں وزیراعظم کو یہی تجویز دوں گا کہ اس کمیشن کا عرصہ رپورٹ کم سے کم رکھا جائے، میرا خیال ہے کہ کمیشن کو 30 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنی چاہیے، اگر کمیشن نے یہ مناسب سمجھا اور کمیشن نے کینیا کا وزٹ کرنا ہوا تو اس میں ممکن ہے کچھ ٹائم لگ جائے گا لیکن بہرحال 30سے 60دن کے اندر اس معاملہ پر واضح رپورٹ آنی چاہیے۔