۔۔۔۔ سودائی ۔۔۔۔۔۔۔۔
انگلستان نے دنیا کو بڑے بڑے لوگ اور کئی نئے انداز کے فکر سے روشناس کروایا۔جدید دنیا پہ ان کے اثرات ہر شعبہ زندگی میں نمایاں ہیں.
اٹھارویں صدی کے اک مفکر اور مصنف چارلس کولیٹن کا کہنا تھا۔
” ارباب ظلم و تشدد ابھی تک وہ زنجیریں نہیں ڈھونڈ پائے،جن سے دماغوں کو جکڑا جا سکے “۔
پاکستان میں ظلم کا بازار گرم ہے،لوگ حکمرانوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں ۔کسی کی جان مال اور عزت محفوظ نہیں ۔لوٹ مار اتنی بڑھ چکی ہے کہ چند طبقوں کے سوا سارا ملک زندگی کی ڈور کو کٹ جانے سے بچانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
ایسے میں عمران خان ان کی ڈور کو تھامنے اٹھا ہے ،مگر مقتدر حلقے خود اس کی زندگی کی ڈور کاٹ دینے کے درپے ہو گئے ہیں ۔
آواز خلق تو یہی ہے۔ایسا نہیں ہے تو ان حلقوں کا فوری کام بنتا ہے کہ اپنا کام اور مقام واضح کریں ۔
فوجی قیادت کو عوامی غیض وغضب کا سامنا کرتے دیکھ کر دکھ ہوا .فوج ہماری آن اور ملکی بقاء کی ضامن ہے۔
لوگوں کو احتیاط برتنی چاہئے ۔
برسوں پہلے بروکلین انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ پڑھی تھی۔
بقول ان کے پاکستان میں کبھی اسلامی نظام نافظ نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان میں طاقتور ترین طبقہ فوج ہے اور اس کی اعلیٰ قیادت لبرل ہے۔
اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار میں اپنے ایک با اثر دوست سے کرتا تو وہ خاموش ہو جاتے۔ خود وہ ڈائریکٹر ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب رہ چکے اور اصولوں پہ سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے استعفی دے کر گھر بیٹھ گئے ۔
میرا اسلام آباد جانا ہوتا تو اپنے ساتھ آرمی گیسٹ ہاوٴس لے جاتے۔
رات کبھی آنکھ کھلتی تو تہجد اور نوافل کی ادئیگی میں مشغول پاتا۔میجر عارف غازی کا فوج کا یہ چہرہ دل پہ اثر کر جاتا۔اور فوج کا یہ تاثر دلنشیں لگتا ۔
دیکھا جائے تو یہ لوگ کورسز کیلئے امریکا اور برطانیہ جاتے تو رہتے ہیں جدید علوم کے حصول کیلئے سفر میں مضائقہ نہیں ۔مگر مغربی فکرو نظر قبول نہیں ہونی چاہئے ۔
عمران اسلام کا نام تو لیتا ہے ناں۔
ویسے بھی کونسی ڈھکی چھپی بات ہے کہ ہم غلام قوم ہیں۔انگریز خود تو چلا گیا اور ہمارے اوپر مذہبی فقہوں کے مجاور اور جاگیرداروں کے اللٌے تللٌے چھوڑگیا.
جو کالے ہیں مگر خود کو گورے سمجھتے ہیں ،ان بد دماغوں کو یہ نہیں پتہ کہ خود گورے اندر سے کتنے کالے ہیں.ان کی تاریخ لوٹ مار اور قتل و غارتگری سے مزین ہے۔
ان پہ مستزاد خود ساختہ ارسطو نماصحافی ! ان کی خوشامدیں کرتے کرتے ککھ پتی سے لکھ پتی بن بیٹھے۔پچھلے دنوں اک صحافی ،ارشد شریف کی شہادت پہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ اپنے سینئرز سے مشورہ کر لیتا۔
سینئر کون ؟
وہ جو سید مودودی کی مجلس سے اٹھ کے نون لیگ کی گود میں جا بیٹھے یا وہ جو سفارت کار بن بیٹھے۔
آزاد آدمی کا مصلحت سے کیا کام؟
مسلمان آزاد قوم ہیں۔پورے قرآن میں غلامی سے آزادی کا کوئی درس نہیں دیا گیا.وجہ سادہ اور عام فہم ہے کہ مسلمان ہو ! یہ شرط ہے ،تو وہ پھر غلام نہیں رہ سکتا۔
ملکِ عزیز میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
ساری قوم مقروض اور حکمران ؟ مغرب کے غلام !
جنرل ایوب خاں سے کسی نے پوچھا ،اقتدار ؟کہا چھوڑ دیا۔ لوگ کتا کتا کہنا شروع ہو گئے تھے۔
اب حاضر سروس جرنیلوں سے متعلق یہ زبان کلیجہ چیر گئی .
دشمن ممالک میں مٹھائیاں بٹ رہی ہوں گی۔
قابض حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کیا اور کتنا ذکر کیجئے ، قلم کو زحمت اور لفظوں کی ارزانی ہے۔
ہاں مگر افواج اپنا قبلہ ضرور واضح کریں ۔
عمران خان قوم کا ہر دل عزیز اور محبوب ترین رہنما بن کے سامنے آیا ہے۔ان کی جان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔
کئی صحافی ملک چھوڑ گئے ،کیوں ؟
عمران خان پر قاتلانہ حملہ، کیوں ؟
دماغ تشدد سے پابند سلاسل نہیں ہوتے ۔
تاریخ سے سبق سیکھیں۔
سچائی چھا کے رہتی ہے،گو اس میں رنج والم ،دکھ اور مصائب کے لا متناہی سلسلے ہوتے ہیں ۔
قوم سے سچ بولیں دستاویزات اور ثبوتوں کے ساتھ۔
عمران خان بھی اور ان کے متحارب حلقے بھی براہین کے ساتھ بات کریں ۔
قوم کو بے یقینی اور انارکی کی کیفیت سے باہر نکالئیے خدارا۔
وہ نہ ہو یہ کہیں آپ کو ،آپ کے گھروں سے باہر نکال دیں۔
لگ ایسے رہا ہے عمران خان نے ٹھان لی ہے. اور جنونیت کی راہ پہ چل نکلا ہے.
جنونیت حق اور سچ کیلئے ہو تو تحفہ خداوندی اور ثمرہ زندگی ہے۔
عمران خان نے اپنا رخ حیات درست کر لیا ہوا ہے۔ستر سال زندگی کی بہاریں دیکھ لیں اور کتنی دیر۔
حق پہ چلیں تو تاریخ کے اوراق آپ کے نام کی تعظیم کرتےہیں۔اس کے اوراق آپ کےبعد بھی آپ کے نام سے جگمگاتے رہتے ہیں۔
عمران دیوانہ ہوچکا،دیوانگی دنیا اور ما فیہا سےبے نیاز کرتی ہے .
تاریخ کا سبق میرے ساتھ آپ بھی دہرا لیں۔
ہر اک دور کے آقا، غلام ابن
غلام
ہر اک عہد کی تاریخ ،چند
سودائی
اور!
عمران اک تاریخ اور ایک سودائی ہے۔
( تحریر ۔۔۔ عمران رشید )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔