۔۔۔۔۔۔۔ کینیڈا تا امریکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر ۔ عمران رشید ۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔ کینیڈا تا امریکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کی تقویم میں انفرادی اور اجتماعی سفر بھی لکھ دئیے گئے ہیں شائد جب سے انسان زمین پر اُستوار اور ایستادہ کیا گیا،تب سے حالت سفر میں ہے .
جس میں سب سے پہلے اس کی اپنی بقاء کا سفر،پھر جہالت سے رسالت تک کا سفر۔ اندھیروں سے روشنیوں اور غاروں اور پتھروں سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج تک کا سفر۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے بھی تہذیب و تمُّدن کے ارتقائی سفر پہ گامزن رہے۔
چھوٹی سی زندگی کا سفر اور اس میں سمائے انگنت دکھوں اور مصیبتوں کے سفر۔کہیں کہیں کوئی خوشگوار دلکش موڑ،دلفریب دوراہے بھی آجاتے ہیں ۔مگر زیادہ تر شخصی سفر اپنے حالات ٹھیک کرتے کرتے ہی اپنی قبروں میں اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔اور قرآن کی زبانی یہ سفر تمام نہیں ہوتے حتٰی کہ انسان اپنے رب سے جا ملتا ہے۔وہی منزل اور وہی مُنتہٰی ہوتا ہے۔
احقر کو بھی مختلف ممالک کے بے شمار سفر درپیش رہے۔اس سال اکتوبر میں امریکہ کا سفر کیا۔چھ دن اور سات ریاستیں ،لگ بھگ پانچ ہزار کلومیٹر شاہراہ نوردی اور اور فا صلہ پیمائی ہو گئی ۔
سفر کی وجہ بڑے بھائی اے آر بابر سے ملاقات تھی ،جو یونیورسٹی آف ایلو نائے میں اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ پیش کرنے آئے ہوئے تھے۔اکتوبر کی پہلی تاریخ کو شہباز شیروانی کو کال کی اور ہمسفری کا کہا۔کمال ِمحبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا کسی حیل و حجّت فوراً حامی بھر لی ۔ایک ہفتے کی مہلت مانگی۔بیگم کو ایک ہفتے کی چھٹی دلوائی ،بھابھی ٹورانٹو کے اک سکول میں پڑھاتی ہیں. ڈاکٹر شہباز خاندانِ اطباء سے تعلق رکھتے ہیں ۔چار بھائی اور والد میڈیسن ڈاکٹر ایک بھائی وٹنری ڈاکٹر اور محکمہ صحت میں ڈائریکٹر ہے ۔سماجی طور پر طاقتور خاندان ہے۔ایک چچا ڈی آئی جی سکھر اور سُسر ڈائریکٹر جنرل وزارت اطلاعات پاکستان رہ چکے۔سب سے بڑھ کے بہلول خان لودھی دور کے ایک بزرگ ،صدرالدین شیروانی ، ملیر کوٹ والے ، کی نسبت سے نازاں رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر شہباز اور ان کے بڑے بھائی راحیل خان سے مسلسل ربط کی وجہ ان کا دینی رحجان ہے۔شہباز خان مولانا ذوالفقار نقشبندی کے پیروکار اور راحیل خان سیّد مودودی کے عقیدت مند ہیں ۔
احقر کو یہ سعادت حاصل رہی ہے ، پندرہ سال قبل مولانا ذوالفقار سے گوجرانوالہ کی اک نجی محفل میں نصف شب سے طلوع فجرتک خلوت میں ملاقات رہی،کچھ اکتساب فیض کیا،کچھ سیکھا،اور سّید ابوالاعلی مودودی کی فکر تو ویسے ہی رگ و ریشے میں سرائیت کئے ہوئے ہے۔
نو اکتوبر بروز اتوار ڈاکٹر کو ڈاون ٹاوٴن ٹورانٹو سے ساتھ لیا اور عازم سفر امریکہ ہو لئے ۔
چار گھنٹے کی مسافت پر کینیڈین شہر ونڈسر سے امیگریشن کے مراحل سے فارغ ہو کر امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں داخل ہو گئے۔یہاں داخلے کے دو راستے تھے ایک بذریعہ پل اور دوسرا براستہ سرنگ ۔ ہم ایمبسڈر پل سے داخل ہوئے۔کینیڈا اور امریکہ کی ارضی سر حدیں پچپن سو پچیس میل لمبی ہیں ,جو دنیا کی طویل ترین سرحد ہے. سو سے زائد مقامات سے آپ سرحد پار کر سکتے ہیں ۔راستے میں سروس اسٹیشن سے مشہور ٹم ہارٹن کی کافی اور ڈونٹ وغیرہ سے کچھ کیلوریز لیں اور کھانا ڈیرائیٹ میں کامران حمید کے ساتھ کھایا ۔
مخلص سادہ دل اور کھرے آدمی ہیں ۔اپنا کپڑے کا کاروبار جمایا ہوا ہے۔
یہیں امریکہ کی زمین پہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پہل سجود ، ظہر اور عصر کے سجدے ادا کئے ۔
مشی گن آٹو موبائل کی صنعت سے جانا جاتا ہے،اور یہاں خوبصورت جھیلوں کا اک سلسلہ ہے ،جو کینیڈا سے بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔تھوڑی دیر قیام کے بعد امریکی شاہراہوں پہ سفر دوبارہ شروع کر دیا۔یہاں انٹر سٹیٹ کے نام سے سڑکیں گھومتی ہیں ۔آئی چورانوے شاہراہ سے ریاست انڈیانا پولس داخل ہوئے ،یہاں کے کھانے مشہور ہیں ۔پیٹ پوجا کے بعد شیمپین چل دئے۔
جہاں ایلونائے ریاست میں یونیورسٹی واقع ہے۔
چھ گھنٹے سفر کے بعد یونیورسٹی ہاسٹلز پہنچے بھائی بابر سے ملاقات کی۔ان کے دوستوں قدیر لغاری اور اسد شکور نے کھانے کی میز پہ تواضع کی-دونوں حضرات پی ایچ ڈی کے طالبعلم اور قدیرلغاری مہران یونیورسٹی میں کیمیکل انجنیئرنگ کے معلم بھی ہیں ۰صبح اٹھ کے سب لوگ شکاگو روانہ ہو گئے ،شکاگو کا سفر اڑھائی گھنٹے کا تھا۔
یہاں گرانٹ پارک اور رور سائیڈ شہر کا نظارہ کیا۔یہ آج کے دور کے شّداد اور حسن بن صباح کے جنت ماڈل کے شہر اور ممالک ہیں ۔جہاں حشیش اور جنسیات میں لوگ کھوئے رہتے ہیں ۰
شکاگو سے واپسی پر منگل کی رات یونیورسٹی دیکھی۔
کھلی اور وسیع عمارت شیشوں سے جگمگاتی اور دوسری منزل پہ روشن قمقمے خیالات کو غرناطہ اور قر طبہ کی درس گاہوں میں لے گئے ۔جہاں کبھی مسلمان بھی جدید علوم اور فنون میں دنیا کی امامت کیا کرتے تھے۔
بدھ کی صبح
شیمپین سے بابر بھائی کو ساتھ لیا اور نیاگرا فالز کوہو لئے ۔
دس گھنٹے کی کل ڈرائیونگ تھی.آدھا آدھا رستہ شہباز اور میں گاڑی چلا آئے۔راستے میں ریاست اوہائیو کے شہر ٹولیڈو سے میڈیٹیرین کھانا کھایا اور اک اور شہر کلیو لینڈ کی سیر کی۔
نیاگرا فالز ہوٹل میں رات شب بسری کے بعد صبح فالز کے لئے روانہ ہوئے ۔
یہ بھی اُولی الابْصار کے لئے خدا کے وجود کی, زمین پہ اک دلیل ہے۔دنیا کا آٹھواں عجوبہ!
یہ بارہ ہزار سال پرانی آبشاریں ہیں۰
ایک امریکہ کی طرف اور دوسری کینیڈا کی طرف ۰
کینیڈین ہارس شو آبشار سے ایک منٹ میں ساٹھ لاکھ کیوبک فٹ پانی بہتا ہے۔اور اس کو ورلڈ ھنی مون کیپیٹل بھی کہا جاتاہے ۔
اٹھارہ سو چھیاسی میں امریکہ میں مجّسمہ آزادی سے پہلے یہ آبشار ہی ان ممالک کی پہچان تھی ۔بندہ کینیڈا اور امریکہ آئے ،آبشار نہ دیکھے تو سیاحت ادھوری رہتی ہے ۰
دوپہر کو البینی چل دیے،وہاں اک رات قیام کے بعد جمعرات کو نیویارک پہنچ گئے ۔
نیو یارک ریاست کا نام ہے اور اس کے مشہور شہر کا بھی ،جب کے البینی اس ریاست کا کیپیٹل شہر ہے۔
نیویارک دنیا کا کمرشل مرکز ہے،اور اپنی آسمان کو چھوتی عمارات اور رنگ رنگ کی ثقافت سے آباد گنجان ترین شہر ہے۔
مین ھٹن ،ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور بروکلین بھی نیویارک کی پہچان ہیں ۔ٹریفک بہت زیادہ تھی مگر انڈر گراؤنڈ راستوں اور سرنگوں اور پلوں کی مدد سے کہیں کوئی بندش نظر نہ آئی۔لوہے کے پلوں کے پہاڑ ،انسانی تاریخ کی بلاشبہ طاقتور ترین قوم ہیں امریکی ۔آپ ان کو دور حاضر کے عاد و ثمود بھی کہہ سکتے ہیں ۔
لبرٹی سٹیٹ پارک میں مجسمہ آزادی دیکھنے گئے ۔مشعل ہاتھ میں اٹھائے عجیب سا مضحکہ خیز لگا۰
خیالات کے کوندے سے لپکے،یہ کیسی آزادی ہے جو دنیا کو اندھیروں میں ڈبو کے اور مسلمانوں کے گھروں کے چراغ گل کر کے خود شمع روشن کیئے ہوئے ہے؟
پچھلے سو سال میں امریکی تہذیب پوری دنیا کی تہذیبوں کو اپنے کمبل تلے لپیٹ چکی ۔ قومیں مشرقی ہوں یا مغربی ۔شمال میں بس رہی ہوں یا جنوب میں ،سب امریکی جام پیتے پلاتے نظر آتے ہیں ۔
نصب شدہ کھڑے مجسمے کے پاس جانے کی زحمت نہ کی اور پہلو کے بل لیٹے فیروزی رنگ کے مجسمہ آزادی پر ہی اکتفا کرتے ہوئے تصویریں بنوا لیں ،کیونکہ امریکہ کے ہاتھوں دنیا کی اصل آزادی زمین بوس اور شکستہ بدن اور مکرو فریب سے نڈھال چاروں شانے چت زمین پہ اوندھے منہ لیٹی کراہ رہی ہے۔
شام کو نیو جرسی روانہ ہو گئے۔آدھ پون گھنٹے کی ڈرائیو تھی۔وہاں بابر بھائی کو نیو آرک انٹرنیشنل ائرپورٹ پہ اللّٰہ حافظ کہہ کے ریاست پنسلوانیا روانہ ہو گئے ۔دو گھنٹے کا سفر تھا۔
ڈنمور میں ہوٹل بےمونٹ قیام کے بعد جمعہ کی صبح مضافاتی شہر ماسکو دیکھا۔
قدرت کی دلفریب رنگینیاں،پہاڑ،اور رنگ بدلتے درختوں کے پتّوں اور بے حد و بےکنار سبزے کی شکل میں آنکھوں کے سامنے تھیں ۔
دوپہر واپسی کا رختِ سفر باندھا۔
پنسلوانیا سے بفلو اور پھر ٹورانٹو,چھ گھنٹے کا لگا تار سفر۔شہباز کو اس کے گھر چھوڑا اور خود اپنی اقامت گاہ کی طرف رخ کر لیا.
امریکہ بھی دیکھ آئے
وقت بھی گزر گیا
سفر بھی تمام ہو گیا۔

مگر اک سوچ ذہن سے چپک کے رہ گئی۔
یہ سوچتے گھر کی طرف چل دیا۰
یہ سوچتے ، قیام گاہ کیسی؟
گھر کیسا؟
سب عارضی ٹھکانے ،
عارضی مکان اور مسکن،
وقتی پڑاؤ اور ادھورے سفر
اور فانی جہان۔۔

“ِسوا اُس کے انجام سب کا فنا ہے
نہ کوئی رہے گا ، نہ کوئی رہا ہے
مُسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب
غلام اور آزاد ہیں ، رفتنی سب–“

( تحریر ۔۔۔ عمران رشید )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں