۔۔۔ نیا سال اور انگریزی باقیات ۔۔۔۔۔ تحریر ۔ عمران رشید ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔ نیا سال اور انگریزی باقیات ۔۔۔۔۔

نیا سال آیا اور گزر بھی جائے گا۰مغربی دنیا بڑے ذوق و شوق سے اس کا استقبال کرتی ہے۰ذوق ان کی گھٹی میں اور ثقافت کا حصہ ہے،ہاں شوق البتہ نا قابلِ تحریر ہوتے ہیں۔
انگریز خود تو چلا گیا مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا۔
ہمارے ملک میں سارے سال ان کی تہتر سال قبل بوئی ہوئی فصلیں کاٹنے میں صرف ہو رہے ہیں۔
فصلیں بھی کیا ہیں ، سر کنڈے اور گھاس کے پھولوں کے اڈنٹھل اور ان کے ساتھ چمٹی آکاس بیلیں ہیں، جو برسوں سے قوم کی خوشحالی کا رس چوستی چلی جا رہی ہیں۔
اپنی حکمرانی اور اس خطے میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلیے بڑی مہارت اور ذہانت سے اس نے مختلف قسم کی فصلیں بوئیں ۔
تاریخ پہ ان کی نظر تھی، جانتے تھے مسلمانوں میں جتنے غدار اور قوم فروش پیدا ہوئے ہیں اور کسی قوم میں نہیں ملتے ۔
شروعات میں جب ان کو ہندوستان میں اپنا اقتدار جمانے کیلئے مشکلات در پیش آئیں تو انہوں نے ہر قوم اور نمایاں برادریوں کے جانے پہچانے لوگوں کو اپنے زیرِ دام کیا ۔
ان کو کہا گیا کہ زمین اور جاگیر جتنی مرضی لے لو ہمارا ساتھ دو ۔
ان کی نظرِ انتخاب پنجاب پر ٹھہری ۔ بعد میں سندھ کے وڈیروں اور سیدوں اور سرحد کے خوانین اور بلوچستان کے سرداروں سے تعلق داریاں بنا کے پورا پاکستان تھور ،کلر زدہ اور بنجر بنا کے رکھ دیا ۔
پنجاب میں التزاماً زمیندار اور جاگیردار پیدا کئیے گئے ۔
آپ ان کا شجرہ کھولیں ان کی زمینیں اور جا گیریں سب ملک و قوم سے غداریوں اور بغاوتوں کا ننتیجہ ہیں ۔
یہ پہلی ببول کی فصل تھی جو انگریز نے بوئی ۔
پھر دین میں ہیر پھیر کیلئے جعلی اور خانہ ساز نبوّت تیار کی گئی۔ یہ دوسری تشکیک اور اسلامی عقائد میں تکذیب کی فصل تھی، جو اب پوری دنیا، خاص کر مغربی ممالک میں عام دستیاب ہے ۔
اس کے علاوہ سجادہ نشینوں ،خانقاہ نشینوں، پیروں ،فقیروں اور درگاہوں کو تقویت بہم پہنچائی گئی ، اور بدلے میں دین میں غُلوْ کا سلسلہ جاری رکھنے کا کام لیا گیا ۔
کلمے تک سے نابلد اکثر عوام ان کے پیش کردہ رنگ برنگے مذہب سے ملغوبہِ عقائد بن گئے ۔
جاگیرداروں ،وڈیروں اور زمینداروں کی بے حمیتی کا عالم یہ تھا، منافقت کو فن اور عیاری سمجھتے تھے۰
یہ مُلکی اور ملِیّ تحریکوں کی مخبریاں اور جاسوسیاں کرتے رہے ۔
ایک خاندانی نواب نے سّید احمد بریلوی سے دھوکا کر کے جاگیر پائی ۔
ایک بڑے نواب خاندان کے اجداد باقاعدہ ڈاکو تھے ۔
یہ لوگ جنگ عظیم میں پیسے لے کر اپنے علاقے کے لوگوں کو گوروں کی فوج میں رنگروٹ بھرتی کرواتے رہے۔
بے حسی اور ضمیر فروشی کی حد، پنجاب کا اک بر سر اقتدار رہا خاندان بھی ہے،جو جنرل نکلسن کے خون میں لکھے خط کو جنرل کلائیو کی خدمت میں پیش کر کے مسند نشیں ہوا ۔
یہ کلائیو وہی ہے جس نے تین دن کے بھوکے شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو اس کے تین بیٹوں کے سر تن سے جدا کر کے ناشتے میں پیش کیۓ تھے ۔
ان کی برادریوں سے جُڑے تمام سابقے اور لاحقے بشمول القابات ،اعزازات ،ان کی انگریز نوازی اور گورا پرستی کا صلہ ہیں۔
یہ ابن الوقت اور موقع پرست لوگ اقتدار کے لیۓ پارٹیاں بھی بدلتے رہتے ہیں ۔
جب تک پاکستان میں جاگیرداری نظام ختم نہیں ہو پاتا۔ کسی اچھائی یا بھلائی کی آس مت رکھیں۔
ان کو اقتدار سے علیحدہ کر دیں یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے ۔
یہ اعلیٰ و اشرف نہیں، اللّٰہ تعالی کے حضور ادنیٰ مخلوق ہیں،ایک عام انسان جو اپنے بچوں کا پیٹ حلال روزی سے پال رہا ہے ، وہ ان سے ارفع و برتر ہے۔
یہ ابلیسی ذرّیت ہیں ۔
آپ کو غربت اور دربدری کے تاریک پاتال میں اتار کے دم لیں گے ۔ اپنی عزتِ نفس اور خودداری پہ بھروسہ کریں اور ان کا طوق اتار ڈالیں جو نسلوں سے خود غلام ابنِ غلام چلے آرہے ہیں ۔

“مانگے کی روشنی سے نہ پاؤ گے راستہ
اس تیرگی میں لے کے خود اپنے کنول چلو”

مغربی آقاؤں کی خوشامد اور ان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہمارے مذہبی پیشواء بھی پیش پیش رہے ،اپنی جاگیریں اور زمینیں بنائیں، خوب حرام کا مال اکٹھا کیا ۔ دین فروشی کی ،ان کی بے شرمی کی بھی کوئی حد نہ تھی ۔
مائیکل ایڈوائر کو سپاس نامے پیش کرتے رہے ۔
جنرل ڈائر کے قتل عام پہ چپ سادھے رہے ۔ایک بڑا فرقہ ترکوں کے خلاف تعویذ بانٹتا رہا ۔
ستاون کی جنگ آزادی میں گوروں کی فتح کی دعائیں مانگتے رہے ۔
زمانہ بدلا، بساط وہی رہی مہرے بدل گئے ۔
ان کی اولادیں بڑی ہوئیں، کاروباری حضرات اور افسر شاہی سے رشتے ناطے استوار ہوئے ۔ نئی رشتہ داریاں اور نئے کُنبے ،
نئے خانوادے بنے ۔

لو جی !جدید اسٹبلشمنٹ وجود میں آگئی ۔

نئے مخلوط خانوادے اور نئی لوٹ مار ۔
ھَل من مزِید کی ہوس بڑھتے بڑھتے ملکِ عزیز پاکستان کا نا سور ہو گئی ۔
لکھاری اخبار نویس بھی دولت کی دوڑ میں شامل ہو گئے ۔
ملک کے اعلیٰ محافظ حضرات کو جنرل ایوب خان برسوں پہلے مالِ اور کارِ حرام کی چاٹ لگا گیا ۔
مادرِ ملت فاطمہ جناح سے صدارتی الیکشن کے وقت ایوب خان نے اپنے مشاہیر کو کہا کہ اگر مادر ملت صدر بن گئیں تو سب کو سولی پہ چڑھا دیں گی ۔ اپنے مال اور بال بچے بچانے ہیں تو اس سے بچو ۔ اس لیۓ ان کو ہرانا ہے ۔
سارے پاکستان کے لوٹ ماری کاروباری اور زرعی اشرافیہ تمام مولویوں سمیت ایک طرف اور سیّد مودودی ایک طرف ۔
تب اسٹیبلشمنٹ کا مائی باپ ایوب خا ن تھا ۔
آج کو ن ہے ،اور مقابل کون ہے ، بساط پرانی ،چہرے اور مہرے نئے ۔
یاد رہے ایوب خان کو لوگوں نے کُتا کہا اور فاطمہ جناح آج بھی مادرِ ملّت ہے۔

ان آکاس بیلوں سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل کریں تو اے اہلِ وطن ، آپ بھی اپنے ذوق اور شوق کا نیا سال منا لیں، جس میں مشرقی خلوص بھی ہو اور گرمجوشی بھی ہو ۔
آپ کے اپنے دن ہوں ،اور راتیں بھی اپنی ہوں۔
ابھی تو بچا کھچا ملک بھی بیچ دینے کے درپے ہیں یہ مرعوب ذدہ غلام لوگ ۔
جو خود تو اردو کے چند جملے ، فی البدیہہ ادا نہیں کر سکتے اور ان کی اولادیں ،بولنے کی کوشش کرتی ہیں انگریزی ، ڈر ہے پاکستان کو اُن کی تقلید میں انگلستان تو بنا نہیں سکتے ،کہیں گورستان ہی نہ بنادیں ۔

نشانِ منزلِ مقصود غائب
کہاں لے جائیں گے گُمراہ راہبر

( تحریر ۔۔۔ عمران رشید )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں