اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 90 دن میں کے پی اور پنجاب اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کرانے کیلئے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ دونوں صوبوں میں نوے دن میں الیکشن کرائے جائیں، کچھ ایسے تکنیکی مسائل اور لاجسٹک رکاوٹیں ہیں جنہیں الیکشن سے قبل دور کرنا ضروری ہے۔
تکنیکی معاملہ یہ ہے کہ الیکشن پروگرام کو پورا کرنے میں 54 دن لگیں گے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ عمل پورا کرنا ہے چونکہ 45؍ دن پہلے ہی گزر چکے ہیں لہٰذا 90؍ دن میں دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کرانا بظاہر نا ممکن لگتا ہے۔
لاجسٹک معاملے کی بات کی جائے تو الیکشن کمیشن کا انحصار وفاقی اور صوبائی حکومتوں (کے پی اور پنجاب)، گورنر کے پی، عدلیہ اور دفاعی اداروں کے تعاون اور سہولتوں پر ہے اور ان سب نے پہلے ہی الیکشن کمیشن کے روبرو 90؍ دن میں الیکشن کرانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے۔
اسمبلیاں تحلیل ہونے کے چند ہی دن بعد الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت، دو گورنرز اور ساتھ ہی صوبائی حکومتوں، دفاعی اداروں کے حکام اور عدلیہ سے تعاون کے حصول کیلئے رابطہ کیا تھا تاکہ الیکشن کرائے جا سکیں۔
وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ الیکشن کیلئے فنڈز کی فراہمی کی درخواست ملک کی نازک معاشی صورتحال کے پیش نظر ممکن نہیں۔ اس کی بجائے، وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ جب تک معاشی صورتحال سنبھل نہیں جاتی اس وقت تک یہ مطالبہ موخر کر دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کو پنجاب اور کے پی حکومتوں کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ قانون اور امن عامہ کی صورتحال سمیت کئی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ الیکشن کمیشن کی مدد کر سکیں۔ وزارت داخلہ نے 8؍ فروری کو الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ سول اور مسلح افواج کی تعیناتی، جس کی درخواست الیکشن کمیشن نے کی ہے، ممکن نہیں۔
کمیشن نے یکم فروری 2023ء کو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھا تھا جس میں چیف جسٹس سے مشاوت کی درخواست کی گئی تھی کہ ماتحت جوڈیشل افسران کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر لگایا جائے۔