تحریر:- حامد میر
ایک نہیں بہت سے دوست مجھ سے ناراض ہو چکے ہیں ،ان کی شکایت یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی گرفتاریوں کی مذمت کیوں کر رہے ہیں جنہوں نے آپ پر جھوٹے الزامات لگائے اور آپ پر پابندیوں کی حمایت کی ؟عرض کیا کہ عمران خان کے دور حکومت میں مجھ پر پابندی لگانا اور مقدمے قائم کرنا غلط تھا تو شہباز شریف کے دور حکومت میں یہ پابندیاں اور مقدمے جائز کیسے ہو سکتے ہیں؟
دوست کہتے ہیں کہ آپ آزادیٔ صحافت کی جنگ لڑ رہے تھے ، آپ کی لڑائی صحافیوں پر تشدد اور ان کے اغوا کے خلاف تھی لیکن آج جن صاحبان پر مقدمات قائم ہو رہے ہیں وہ صحافی نہیں ہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کیلئے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔معاشرے میں تقسیم اتنی بڑھ گئی ہے کہ اختلاف رائے دشمنی میں تبدیل ہو چکا ہے ۔عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہیں ، ان کے سیاسی مخالفین عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک قرار دے کر ان کی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ مطالبہ کرنے والوں کو جب یاد دلایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے ذریعے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگوائی گئی لیکن کل کی نیپ آج عوامی نیشنل پارٹی کی صورت میں بھٹو صاحب کے وارثوں کی اتحادی ہےتو طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ اس عمران خان کی سہولت کاری کر رہے ہیں جس نے آپ پر بدترین سنسر شپ لگائی ۔
مجھے تو پتہ ہے کہ عمران خان کے دور میں مجھ سمیت بہت سے صحافیوں پر جو پابندیاں لگائی گئیں ان کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید تھے لیکن تحریک انصاف والوں کا کمال دیکھئے کہ وہ باجوہ کا نام لیتے ہیں لیکن فیض کا نام نہیں لیتے کیونکہ فیض کا آج بھی زلمے خلیل زاد سے رابطہ ہے ۔دونوں نے مل کر دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کا نام نہاد امن معاہدہ کرایا تھا۔ دوسری طرف پی ڈی ایم والوں کا یوٹرن دیکھئے جس باجوہ کا نام لینے پر پیمرا نے نواز شریف پر پابندیاں لگائیں آج پی ڈی ایم و الے اس باجوہ کا نام نہیں لیتے اور ہر برائی صرف جنرل فیض کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر کوئی اپنی اپنی پسند کا سچ بولتا ہے اور چاہتا ہے کہ صحافی بھی اسی کی مرضی کا سچ بولیں اگر کوئی صحافی تحریک انصاف کی مرضی کا سچ نہیں بولتا تو وہ لفافہ ہے ۔کوئی صحافی پی ڈی ایم کی مرضی کا سچ نہ بولے تو وہ عمران خان کا سہولت کار ہے ۔مجھ جیسے صحافی سے صرف تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے قائدین نہیں بلکہ جنرل باجوہ بھی ناراض ہیں ۔کل ایک ہمدم دیرینہ نے بڑے طنز بھرے انداز میں کہا کہ جنرل باجوہ نے تمہیں عمران خان اور شیخ رشید احمد کی طرح جھوٹا قرار دے دیا ہے لیکن جب بھی اس باجوہ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی تو تم اس کی حمایت میں بھی کھڑے ہو جانا ۔
دوست کا طعنہ سن کر میں سوچ میں پڑ گیا یاد آیا کہ باجوہ تو وہی شخص ہے جس نے اپنے عروج کے زمانے میں ایک دن میڈیا ہائوسز کے مالکان کو سامنے بٹھا کر انہیں صحافتی اخلاقیات پر لیکچر دیا اور کہا کہ آپ لوگ قومی مفاد کا خیال نہیں رکھتے ۔پھر مثال دیتے ہوئے کہا کہ حامد میر نے ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کے گائوں جاکر پروگرام کیا اور پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا ۔بھلا ہو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور صاحب کا کہ انہوں نے بعد میں جنرل باجوہ کوبتایا کہ حامد میر نہ تو کبھی اجمل قصاب کے گائوں گیا اور نہ ہی ایسا کوئی پروگرام کیا ۔
شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے آرمی چیف نے بہت سوچ سمجھ کر ٹی وی چینلز کے مالکان کے سامنے ایک جھوٹ بولا تھا۔ اگلے ہی دن ایک ٹی وی چینل کے ذریعےمجھ پر توہین رسالتؐ کا الزام لگا دیا گیا اور آج کل اس چینل کے مالک کے خلاف افواج پاکستان کے بارے میں مہم چلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔میں نے یہ سب یاد کرنے کے بعد طعنہ زنی کرنے والے دوست سے کہا کہ اگر جنرل باجوہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تو مخالفت کروں گا لیکن اگر مقدمہ صحیح ہوا تو پھر صحیح صحافت کروں گا۔کسی صحافی کی جنرل باجوہ یا عمران خان یا شہباز شریف سے کوئی ذاتی مخاصمت نہیں ہونی چاہئے اور صاحبانِ اختیار کو بھی چاہئے کہ صحافیوں کو صحافی رہنے دیں انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا کریں ۔
یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ جنرل باجوہ مجھ سے کیوں ناراض ہوئے اور انہوں نے مجھے راہ راست پرلانے کے لئے توہین رسالتؐ کے الزام کا استعمال کیوں کیا ؟ جنرل باجوہ کو میں اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ بریگیڈیئر تھے ۔انہوں نے آرمی چیف بننے کے بعد رات دیر گئے تک ملاقاتیں شروع کیں تو میں تاڑ گیا کہ یہ کچھ سیاست دانوں کو سمجھانے بجھانے کیلئے ایک بیک چینل کھول رہے ہیں ۔2018ء کے انتخابات سے قبل ایک رات انہوں نے مجھے کہا کہ ہم شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں انہیں بتا دیں کہ نواز شریف کو چھوڑنا ہو گا۔میں نے لیت ولعل سے کام لیا تو دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پھر مجھے مارشل لاء لگانا پڑے گا اور کم از کم پانچ ہزار افراد کو الٹا لٹکا دوں گا۔
اگلے دن میں لاہور پہنچا اور شہباز شریف سے عرض کیا کہ آپ کو کسی بھی قیمت پر نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شہباز صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ میں یہ الفاظ سننے کو تڑپ رہا تھا۔پھر انہوں نے باجوہ اور ان کے دو ساتھیوں کے سامنے بیٹھ کر خود ہی وزیر اعظم بننے سے انکار کر دیا۔ایک رات باجوہ نے مجھے آرمی ہائوس بلایا تو وہاں سلیم صافی اور ارشاد بھٹی بھی موجود تھے، فرمایا عمران خان کو کہیں کہ نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے جنرل جیلانی کا ذکر نہ کیا کریں۔ میں نے بڑے ادب سے کہا کہ یہ میرا کام نہیں باجوہ نے بہت اصرار کیا لیکن میں نے یہ پیغام نہیں پہنچایا جس پر ناراض ہوگئے۔
عمران خان جب وزیر اعظم بن گئے تو ایک دن بلا کر کہا کہ وزیر اعظم سے کہیں اسد عمر کو وزارت خزانہ اور عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیں ۔میں نے کہا یہ میرا کام نہیں وہاں ایک اور صحافی دوست موجود تھا اگلے دن اس نے یہ پیغام پہنچا دیا اور خان صاحب نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا دیا باتیں تو بہت ہیں لیکن آخری بات سن لیجئے ۔اپریل 2021ء میں ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو باجوہ نے مجھ سمیت دو درجن صحافیوں کو سامنے بٹھا کر کہا کہ ابصار عالم پر حملے کی وجہ ان کی ’’غیر نصابی سرگرمیاں‘‘ تھیں۔
اس قسم کا الزام دیگر صحافیوں پر بھی لگ چکا تھا ہم نے ایک زخمی ساتھی کے بارے میں باجوہ کی ہرزہ سرائی پر ناگواری کا اظہار کیا ۔یہ وہ ابصار عالم تھے جن کے پاس میجر جنرل (ر) اعجاز امجد اپنے داماد کو آرمی چیف بنوانے کے لئے سفارشیوں کے ساتھ آتے تھے ،ابصار عالم، فود حسن فواد اور عرفان صدیقی نے باجوہ کی سفارش کی ۔ان تینوں کے ساتھ جو ہوا اسے محسن کشی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ بہرحال اگر کبھی باجوہ پر جھوٹا مقدمہ بنا تو میں اس کی حمایت نہیں کروں گا۔ میرے اور ان میں بہت فرق ہے۔
تحریر:- حامد میر