تحریر:- مظہر عباس
پچھلے چند ہفتوں سے میڈیا کی زینت دو ہی خبریں رہیں، ایک سیاسی میدان میں پنجاب کے الیکشن اور دوسرے کراچی میں ’’نورجہاں ہتھنی‘‘ کی بیماری اور المناک موت۔ ایک کو دفنا دیا گیا ہے دوسرے کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سنا ہے آج سیاسی ڈاکٹروں کی ٹیم بیٹھے گی، مشورہ کرے گی کہ ’’سیاست‘‘ بچ سکتی ہے یا نہیں۔
جس معاشرے میں انسانوں کو جانوروں کی طرح رکھا جاتا ہے نہ پینے کا صاف پانی، نہ بجلی نہ گیس وہاں یہ بیچاری ’’نور جہاں‘‘ کہاں بچتی ہم تو اصلی نور جہاں کی قدر نہ کرسکے۔ اب پتا نہیں اس کے علاج میں کہاں کہاں غفلت برتی گئی ہوگی، اگر صحیح تحقیق ہوئی تو پتہ چل جائے گا کہ دوا اصلی دی گئی کہ نقلی کیونکہ انسانوں کو تو دو نمبر دوائیں ملتی ہیں اور وہ بھی زیادہ قیمتوں میں۔
اس معصوم کی شکل دیکھ کر ہی اندازہ تھا کہ یہ مشکل سے بچے اور وہ لیٹی تو دوبارہ کھڑی نہ ہوسکی مگر ’’بل‘‘ سنا ہے ایک دو کروڑ سے زیادہ ہی بنا۔ اب یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ ’’چڑیا گھر‘‘ کو ہی ختم کرنے پر غور ہو رہا ہے اس بات میں پتا نہیں کتنی صداقت ہے ظاہر ہے وہ زمین تو اربوں روپے کی ہے، اس ’’شہر بے مہر‘‘ میں کھیلوں کے کئی میدان اور پارک پلازوں میں تبدیل ہوگئے، وہ تو کیا اسپتال تک ختم کرکے شاپنگ پلازے بنا دیئے گئے۔ تو اچھا ہے ’’چڑیا گھر‘‘ ختم کریں کم از کم انسان نہیں تو جانور تو آزاد ہوں یہاں تو نہ جانے کتنے نوجوان غائب ہیں یا شہر میں واقع ’’لاوارث قبرستان‘‘ میں دفن ہیں ’’ووٹ کو عزت‘‘ نہیں دے سکتے تو جانوروں کو تو عزت کے ساتھ جینے دو۔
تحقیق کی جائے تو یہ بھی پتا چل سکتا ہے کہ یہاں سے کتنے اور کون کون سے جانوروں بشمول چیتا، شیر اور ہاتھی کے بچے ’’غائب‘‘ کئے گئے اور کس کو بیچے گئے۔ یہاں کی اشرافیہ کے گھروں میں نجی ’’چڑیا گھر‘‘ موجود ہیں اور ظاہر ہے یہ ان کی محنت کی کمائی سے تو بنے نہیں عین ممکن ہے جانور بھی چوری کے ہوں۔
یہ تو وہ بدقسمت ملک اور شہر ہے جہاں پاکستانیوں کو ’’شکار‘‘ کی اجازت نہیں مگر غیرملکی شہزادوں کیلئے ہر قسم کے چرند پرند موجود ہیں۔ آپ ان کا شکار کریں تو جیل جائیں ’’وہ‘‘ کریں تو صدور اور وزرائے اعظم تک موجود۔ اسی شہر میں ایک FIAکے سینئر افسر ہوتے تھے ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ یہاں سے ’’فیلکن‘‘ اسمگل کیا کرتے تھے اور بڑا مال بنایا موصوف نے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو ’’اونٹ ریس‘‘ کے نام پر بھاری رقم وصول کرکے بیچتےرہے،بہت سے بچے مارے گئے کئی معذور ہوگئے۔
برسوں پہلے انصار برنی نے اس حوالے سے خاصا کام کیا تھا۔اس لاوارث شہر کا حال بھی اس سے کچھ کم نہیں یہاں بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے ہتھیار دے دیئے گئے۔ سب سے پہلے ’’میرٹ‘‘ کا قتل عام ہوا، آخرکار پڑھے لکھے نوجوانوں نے خود ہی ’’ہجرت‘‘ کرلی اب وہ پلٹ کر اس لئے بھی نہیں آنا چاہتے کہ باہر انہیں ان کے بچوں اور ماں باپ کومفت میڈیکل ،اچھی تعلیم اور انصاف تو میسر ہیں۔ ان کے دل ضرور اپنی زمین کیلئے دھڑکتے ہیں پھر بھی وہ واپس آنا نہیں چاہتے۔ یہاں تعلیم لینے اور دینے والے دونوں ہی ’’فارغ‘‘ہیں۔ ادھر تو وائس چانسلر کی تلاش بھی اس طرح کی جاتی ہے جیسے گمشدہ بچوں کی۔ نہ داخلہ میرٹ پر ملتا ہے نہ پروفیسر اور وائس چانسلر کا تقرر۔ جب ’’سلیکشن کمیٹی‘‘ کا اپنا سلیکشن میرٹ پر نہیں ہوگا تو وہ کسی کو ’’سلیکٹ‘‘ میرٹ پر کیسے کرسکتا ہے۔
میں نے کہا نا یہ ایک لاوارث شہر ہے کئی سال پہلے غالباً 80کی دہائی میں ایک بین الاقوامی ادارے نے کراچی کے پانی کو جانوروں کیلئے مضر قرار دیا تھا یہاں تو انسان وہ پانی دہائیوں سے پی رہے ہیں۔ میرا برسوں پرانا چیلنج آج بھی موجود ہے کہ کوئی بھی ایک ’’سرکاری ادارہ‘‘ بتائیں جہاں ’’ایمانداری‘‘ اور ’’دیانت‘‘ سے کام ہوتا ہو ۔یہاں تو بے ایمانی بھی ایمان داری سے نہیں ہوتی۔
اب یہ سارے کام ان لوگوں کے کرنے کے تھے جو عوام کو ’’طاقت کا سرچشمہ‘‘ سمجھتے ہیں جو آج بھی اس سیاسی بحث میں مصروف ہیں کہ ملک میں الیکشن ایک ساتھ ہوں یا پہلے پنجاب میں۔ سارا جھگڑا ہی ’’تخت لاہور‘‘ کا ہے مگر اسلام آباد اور لاہور کی اس جنگ سے کوسوں دور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی آبادی 2017سے بھی کم کرکے اس منی پاکستان اور معاشی حب کو سیاسی عمل سے ہی باہر کرنے کی سازش پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ جس کی آبادی کے بارے میں پورا پاکستان متفق ہے کہ کسی بھی طرح تین کروڑ سے کم نہیں مگر سیاست اور ریاست کے چوہدری اسے ماننے کو تیار نہیں اور اس کی سیاسی حدود کو محدود کیا جا رہا ہے۔
اب الیکشن الگ الگ کریں یا ایک ساتھ اس شہر کے ساتھ تو ہاتھ ہوہی گیا ہے۔ اس بار یہ کام ’’ڈیجیٹل مردم شماری‘‘ کے نام سے آبادی کا قتل عام کرکے کیا گیا۔ ظاہر ہے ہر شخص صاحب اقتدار ہو یا صاحب اختیار یہی کہتا کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے کم نہیں اب اگر اسے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے کچھ زیادہ بتایا جا رہا ہے تو ایک کروڑ سے زائد آبادی کو تو مار ہی دیا گیا ناں!میں نے کہا تھا کہ مسئلہ سوچ اور مزاج کا ہے۔ یہ اگر منی پاکستان ہے تو اس کیلئے حق مانگنے والوں کو متعصب کیوں گردانا جاتا ہے۔ وہ لب و لہجہ جو کل تک الطاف حسین کا تھا، آج حافظ نعیم کا کیوں بنتا جا رہا ہے۔ یعنی جانیں اگر آپ نجی محفل میں نجمی عالم سے بات کریں گے، مسرور احسن سے بات کریں گے یہاں تک کہ ڈاکٹر عاصم حسین سے بات کریں گے تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا باقی سیاست اور جماعتیں سب کی اپنی اپنی ہیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم غلطیاں بھی پرانی کرتے ہیں نئی غلطیاں نہیں کرتے۔ جب بنگالیوں کی اکثریت تھی تو ہم اس مشرقی پاکستان کو اکثریتی صوبہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ 1956میں برابری کی بنیاد پر نشستیں تقسیم کیں آخر اکثریت نے اقلیت سے جان چھڑا لی اور ثابت کیا کہ وہ ہم سے بہتر حکومت چلا سکتے تھے۔ بات صرف پنجاب کی بالادستی کی نہیں آپ کو ووٹ کو عزت دلوانی ہے تو قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور مقامی حکومتوں کو عزت دلوانا ہوگی۔
اگر 18ویں ترمیم سے پارلیمنٹ مضبوط ہوئی، اختیارات صوبوں تک منتقل ہوئے تو پھر اسی ترمیم کے مطابق یہ اختیارات مقامی سطح پر کیوں نہیں گئے اور اب تو اشرافیہ نے قومی سطح سے ہی کراچی کو باہر کرنے کی سازش کرلی ہے۔ اس عروس البلاد کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں جو آپ نے ’’نور جہاں ہتھنی‘‘ کے ساتھ کیا۔ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح روند کر آگے نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ سوچ بدلیں، مزاج بدلیں، یاد رکھیں قبضہ قبضہ ہوتا ہے چاہے وہ اختیارات پر ہو یا اقتدار پر۔
تحریر:- مظہر عباس