تحریر:- مظہر عباس
ہر سال ہم ’’عالمی یومِ آزادی صحافت‘‘ اِس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ شاید کوئی ایسا سال بھی آئے جب صحافت پر اور صحافیوں پر حملوں میں کمی آئے مگر پچھلے 20، 22سال میں کوئی سال ایسا نہیں گزرا جب کوئی صحافی نہ مارا گیا ہو۔ ’’شہدائے صحافت‘‘ کا یہ قافلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور مجال ہے کسی قاتل کو سزا ہوئی ہو جن دو چار کیسوں میں سزا ہوئی تھی وہ بھی ’’ماشاء اللہ‘‘ بری ہو گئے ہیں۔ وہ جوعبید اللہ علیم نے کہا تھا
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الّم گزر رہے ہیں
میرے لوگ مر رہے ہیں میرے شہر جل رہے ہیں
میں بھی سوچتا ہوں کیوں میں نے آج سے چند سال پہلے سندھی اخبار اور ٹی وی چینل کے کیمرہ مین ’منیر سانگی‘ کی بیوہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے سامنے اپنے شوہر کی کیس فائل کو جلانے سے روکا وہ مایوس ہوگئی تھیں انصاف کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے۔یہ کیس 2006ء سے عدالتی فائلوں میں موجود ہے۔
سوچتا ہوں نہ جانے ہمارے ساتھی اور اینکر ارشد شریف کی بیوہ اور والدہ کو انصاف کیلئے کتنا اور انتظار کرنا پڑے گا ابھی تو اُس کی شہادت کو سات ماہ ہی گزرے ہیں۔ نہ جانے کیوں تاخیر ہورہی ہے اور کتنی JITبنیں گی اور کتنے حقائق جاننے کیلئے کمیشن بنیں گے ۔
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
ارشد کی والدہ اب بھی اُس ’’دستک‘‘ کے جواب کا انتظار کررہی ہیں جو انہوں نے انصاف کیلئے دی تھی۔ بیٹا تو اب واپس نہیں آسکتا کم از کم اس کا ہی پتہ چل جائے کہ آخر اُس کا قصور کیا تھا اور کیاوہ اتنا سنگین جرم تھا کہ پہلے اُسے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور پھر اِس ملک اور شہر میں مارا گیا جو دُنیا میں جرائم کے لحاظ سے سرفہرست ہے جہاں کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں یہ کام اُجرت کے عوض کرنے میں کمال عبور رکھتی ہیں۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بڑے جوش و خروش سے یہ یقین دلایا تھا کہ قانون کے لمبے ہاتھ قاتلوں تک ضرور پہنچیں گے مگر تاحال وہ ہاتھ نہیں آرہے کیونکہ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔
بلوچستان کے صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سے بیشتر نوجوان تھے اور اِس شعبہ میں اِس عزم اور لگن سے آئے تھے کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم باقی پاکستان کو یہ تو بتا سکیں کہ اُن کے صوبہ میں دہشت گردی، انتہا پسندی کے سوا بھی بہت کچھ ہے جو ہمارا میڈیا نہیں دکھاتا۔ یہاں صرف ’’شہداء کا قافلہ‘‘ ہی نہیں ہے نامعلوم لوگوں کا بھی لمبا قافلہ ہے۔ اب نہ جانے کتنے صحافیوں کے والدین، بیوائیں اور بھائی بہن جنہوں نے ہمت کرکے انصاف کے دروازہ پر دستک دی مگر آج تک کسی ایک ایسے کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، یہ تک یقین نہیں دلایا جاتا کہ ’’تحقیق‘‘ ہورہی ہے۔
بلوچستان کے علاوہ اگرکوئی صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا تو وہ خیبرپختوا (کے پی) ہے۔ یہاں 2005ء میں ایک صحافی حیات اللہ مار ا گیا تو اُس کی بیوہ نے ہمت کی کیونکہ انصاف دلانے والوں نے یقین دلایا تھا کہ ’’تم تعاون کرو، انصاف ملے گا۔‘‘ وہ گئی اور جوڈیشل کمیشن کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا بتایا کون لوگ تھے مارنے والے، شناخت کیلئے بھی تیار تھی ۔ یہ بیان ہی اُس کی موت کا پروانہ بن گیا اور وہ بھی ’’شہدائے صحافت‘‘ کے قافلے میں شامل ہوگئی۔ وادیِ سوات بھی اِس سے محفوظ نہ رہ سکی اور یہاں بھی وہی خون کی ہولی کھیلی گئی اور کئی نوجوان صحافیوں کے قاتل شناخت کے باوجود نہ پکڑے گئے ،جو پکڑے گئے وہ چھوڑ دیئے گئے۔ موسیٰ خان خیل کی وہ تصویر اور وہ بیپر آج بھی مجھے یاد ہے جو اُس نے جیو پر دیا تھا۔
پاکستان میں صرف یہ دو صوبے ہی صحافیوں کے خون میں لت پت نہیں رہے خود وفاقی دارالحکومت اسلام آباد آج سب سے زیادہ غیر محفوظ ہےصحافیوں کے لئے بھی اور صحافت کیلئے بھی۔ ایک ارشد شریف ہی کیا میرے شہر کراچی کا نوجوان سلیم شہزاد اسلام آباد اس لئے منتقل ہوا تھا کہ شاید ’’وفاق‘‘ زیادہ محفوظ جگہ ہے مگر ایسے ’’محفوظ‘‘ شہر سے بھی اُٹھا لیا گیا پھر منڈی بہائو الدین کی ’’نہر‘‘ سے اُس کی لاش ملی۔
مجھے آج بھی یاد ہے اُس کی بیوہ کا فون جو اُس کے اغوا کے دوسرے دن مجھے آیا تھا۔ بعد میں تو اُسے تسلی دینے کیلئے الفاظ بھی نہیں تھے۔ ایک کمیشن بھی بنا مگر کمیشن کے چھوٹے ہاتھ قاتلوں کے لمبے ہاتھوں تک نہ پہنچ پائے۔پچھلے دنوں ولی خان بابر کے بھائی سے بات ہوئی۔ کیس فائل اِس نوجوان رپورٹر کے قتل کی بھی بند ہوگئی۔ جیو کا یہ نوجوان رپورٹر بہیمانہ طریقےسے مارا گیا۔ مبینہ قاتل بھی پکڑے گئے، مقدمہ بھی چلا سزا بھی ہوئی اور بریت بھی ہوگئی ۔ یہ اپنی نوعیت کا شاید واحد مقدمہ تھا جس سے جُڑے سات کردار بھی مارے گئے۔
میں نے کہا نا ں’’شہدائے صحافت‘‘ کا قافلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے کوئی کسی وجہ سے مارا جارہا ہے کوئی کسی وجہ سے مگر اِن 120صحافیوں کے قاتل اب بھی آزاد ہیں،اب بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنے بھی صحافی مار دیں ہمیں کچھ نہیں ہوگا مگر اُنہیں خبر نہیں کہ ہر صحافی کی موت قوم کی حیات ہے کہ اِدھر شہدائے صحافت میں اضافہ ہورہا اُدھر ہرسال نئے صحافیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ وہ قاتلوں کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نوجوان جان کی پروا کئے بغیر خبر کی لگن میں نکل پڑتے ہیں اور ایسے میں کوئی نہ کوئی تیار بیٹھا ہوتا ہے۔
’’آزادی صحافت‘‘ کے عالمی دن کے موقع پر کس کس کو تسلی دوں کہ یہ واقعات رک جائیں گے۔ اِن شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی ہی کیا جاسکتا ہے اور معذرت کہ ہم اپنے ساتھیوں کے قاتلوں اور قتل کروانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لا پائے۔
آج نہ صحافت آزاد ہے نہ صحافی۔ پرنٹ سے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں اظہار رائے ایک موثر ہتھیار کے طور پر سامنے ضرور آیا ہے مگر اُس کے اوپر بھی اب ایک تلوار’’ PECA-2016‘‘ لٹکا دی گئی ہے۔ کاش جتنی تیزی سے اس قانون کا سہارالے کر سوشل میڈیا کے لوگ اٹھائے جاتے ہیں اسی طرح صحافیوں کے قاتل بھی پکڑ لیتے تو شاید ’’شہدائے صحافت‘‘ کی فہرست آگے نہ بڑھتی یا کم از کم اس تیزی سے اضافہ نہ ہوتا۔ یہ سال ارشد شریف کے نام۔
تحریر:- مظہر عباس