صحت مند طرز زندگی کے لیے ورزش کو معمول بنانا اہم ہوتا ہے کیونکہ اس سے جسمانی وزن میں کمی لانے سمیت دیگر طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
مگر روزمرہ کی زندگی کی مصروفیات کے باعث بیشتر افراد کے لیے ورزش کے ذریعے جسمانی وزن میں کمی لانا مشکل ثابت ہوتا ہے۔
خوش قسمتی سے ورزش سے ہٹ کر بھی جسمانی وزن میں کمی لانا ممکن ہے، جس کے لیے غذا اور طرز زندگی میں چند عام تبدیلیوں کو لانا ضروری ہے۔
اس حوالے سے غذا کا کردار اہم ثابت ہوتا ہے کیونکہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہ جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تو ان آسان ٹپس کے بارے میں جانیں جن کی مدد سے ورزش کیے بغیر بھی جسمانی وزن میں کمی لانا ممکن ہوتا ہے۔
غذائی اجزا سے بھرپور غذا کا استعمال
ویسے تو بیشتر افراد جسمانی وزن میں کمی کے لیے غذا کی مقدار میں کمی لاتے ہیں مگر اس سے جسم مختلف غذائی اجزا سے محروم ہونے لگتا ہے۔
جسمانی وزن میں کمی اور مجموعی صحت کو بہتر بنانے کے لیے غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔
سالم اناج، پھلوں، سبزیوں، چکنائی سے پاک گوشت، کم چکنائی والی دودھ سے بنی مصنوعات، انڈے، مرغی اور مچھلی کا گوشت، پھلیاں اور گریاں جیسی غذاؤں کا استعمال جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اسی طرح دائمی امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
زیادہ پروٹین والی غذائی اشیا کا انتخاب کریں
جسمانی مسلز کو بنانے میں پروٹین کا اہم کردار ادا ہوتا ہے جبکہ یہ غذائی جز انسولین کی حساسیت کو بھی بڑھتا ہے جس سے بھی جسمانی چربی میں کمی آتی ہے۔
پروٹین سے بھرپور غذاؤں کے استعمال سے پیٹ بھرنے کا احساس زیادہ وقت تک برقرار رہتا ہے جس سے بھی جسمانی وزن میں کمی لانا آسان ہو جاتا ہے جبکہ ان سے جسمانی وزن کو طویل المعیاد بنیادوں پر مستحکم رکھنا بھی ممکن ہوتا ہے۔
گریاں، سبزیوں، انڈوں اور مچھلی جیسی غذاؤں میں پروٹین کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے۔
فائبر کا زیادہ استعمال کریں
فائبر ایسا غذائی جز ہے جو صحت کو متعدد طریقوں سے فائدہ پہنچاتا ہے۔
فائبر کے استعمال سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد ملتی ہے جبکہ پیٹ بھرنے کا احساس بھی دیر تک برقرار رہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پھلوں، سبزیوں، پھلیوں، گریوں اور سالم اناج میں فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہ غذائیں مختلف وٹامنز، منرلز، اینٹی آکسائیڈنٹس اور قدرتی مرکبات سے بھی بھرپور ہوتی ہیں۔
اس سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔
پانی کی مناسب مقدار کا استعمال
پانی سے جسمانی درجہ حرارت کنٹرول میں رہتا ہے، بلڈ پریشر میں کمی آتی ہے، غذائی اجزا اور آکسیجن جسمانی خلیات تک پہنچتے ہیں اور گردوں کے افعال کو درست رکھنا ممکن ہوتا ہے۔
میٹھے مشروبات کی جگہ پانی کو ترجیح دینے سے دن بھر میں استعمال کی جانے والی کیلوریز کی مقدار میں کمی آتی ہے جبکہ بتدریج جسمانی وزن میں کمی لانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق ہر بار کھانے سے قبل ایک سے 2 گلاس پانی پینے سے غذا کی کم مقدار کھانے میں مدد ملتی ہے جس سے بھی جسمانی وزن میں کمی آتی ہے۔
طبی ماہرین کی جانب سے روزانہ کم از کم 6 سے 8 گلاس پانی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاہم موسمی حالات اور جسمانی مشقت کو مدنظر رکھ کر اس مقدار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
نیند کی اچھی عادات اپنائیں
نیند کے دوران ہمارا جسم اپنی مرمت کرتا ہے اور جسمانی وزن میں کمی لانے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مناسب اور معیاری نیند سے جسمانی وزن اور جسمانی چربی میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔
تحقیق کے مطابق نیند کی کمی سے تناؤ کی سطح بڑھانے والے ہارمونز کی تعداد بڑھتی ہے جس سے جسمانی وزن میں کمی لانا مشکل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق 26 سے 64 سال کی عمر کو ہر رات 7 سے 9 گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔
اچھی نیند کے لیے سونے سے قبل کیفین کے استعمال سے گریز کریں جبکہ نیند کے وقت سے ایک سے 2 گھنٹے پہلے ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال نہ کریں۔
روزانہ ایک ہی وقت سونے اور بیدار ہونے کو معمول بنانے سے جسمانی گھڑی کو ریگولیٹ کرنے میں مدد ملتی ہے جبکہ نیند کا معیار بہتر ہوتا ہے۔
تناؤ کو کنٹرول کریں
تحقیقی رپورٹس میں جسمانی و ذہنی تناؤ اور جسمانی وزن میں اضافے کے درمیان تعلق ثابت ہوا ہے۔
تناؤ کے باعث جسم میں ایک ہارمون کورٹیسول کا اخراج ہوتا ہے جو کھانے کی خواہش کو بڑھانے کے ساتھ چربی کا زیادہ ذخیرہ کرنے لگتا ہے۔
اس ہارمون کی تعداد بڑھنے سے ایسی غذاؤں کی خواہش بڑھ جاتی ہے جن میں چکنائی اور چینی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث توند نکلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ تناؤ کے شکار افراد ضرورت سے زیادہ کھانا کھاتے ہیں جس سے جسمانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔
تناؤ کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے یوگا کی مشق، گہری سانسیں لینے یا مطالعے جیسی عادات کو اپنایا جا سکتا ہے یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔