اسلام آباد ہائیکورٹ نے 144 ملین روپے قومی خزانے کے حوالے کردیئے

اسلام آباد: اگرچہ عام طور پر کفایت شعاری کی مہم غیر واضح ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے رواں مالی سال کے بجٹ سے 144ملین روپے وزارت خزانہ کے حوالے کر دیے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا رواں مالی سال کے لیے 1.1 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔ 30 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے 144ملین روپے وزارت خزانہ کے حوالے کر دیئے۔

مذکورہ رقم کے حوالے کرنے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کا نظرثانی شدہ بجٹ 966 ملین روپے ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ بجٹ میں کٹوتی کریں اور عوامی مفاد میں اور قومی مقصد کے طور پر بچت کو قومی خزانے کے حوالے کردیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ کسی بھی ملازم کو کوئی اعزازیہ نہیں دیا جائے گا۔ پچھلے سال بھی جون میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے مالی سال 2021-22 کے لیے مختص کل بجٹ کا 30 فیصد قومی خزانے کے حوالے کر دیا تھا۔ اس سال فروری میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری اقدامات کا اعلان کیا تھا جس میں تمام سرکاری اداروں کے بجٹ میں کٹوتیاں، کابینہ کے ارکان، ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری ملازمین کی بعض مراعات اور سہولیات بشمول لگژری گاڑیاں اور سیکورٹی/ پروٹوکول شامل تھے۔

وزیراعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) اور عدلیہ – جج (دونوں حاضر اور ریٹائرڈ)، عدالتی عہدیداران اور ملازمین سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ عدلیہ پر اخراجات کم کرکے قومی کفایت شعاری کی مہم میں اپنا حصہ ڈالیں۔ انہوں نے عدلیہ سے توقع ظاہر کی کہ وہ ریٹائرڈ ججوں کی زیادہ سے زیادہ پنشن کو 5 لاکھ روپے ماہانہ تک محدود کر دے گی اور اس کے علاوہ ججوں کی مراعات اور سہولیات کا بھی جائزہ لے گی۔

غیر جنگی دفاعی بجٹ میں کٹوتی کے حوالے سے وزارت خزانہ اور دفاع اپنی سفارشات کو حتمی شکل دینے کے لیے رابطے میں ہیں لیکن ابھی تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ دفاعی بجٹ میں کتنی کٹوتی کی گئی۔ اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹس کی طرف سے اشارہ دیا گیا ہے (اسلام آباد ہائیکورٹ کے استثناء کے علاوہ) انہوں نے قومی کفایت شعاری کی مہم میں حصہ ڈالنے کیلئے اپنے بجٹ سے کتنی بچت کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اعلان کردہ کفایت شعاری اقدامات کے نفاذ کے بارے میں دفتر وزیر اعظم یا وزارت خزانہ کی جانب سے اس نمائندے کے ساتھ کوئی اپ ڈیٹ شیئر نہیں کی گئی۔ وزیراعظم نے اپنی 85 رکنی کابینہ کا حجم کم کرکے 30 نہیں کیا جیسا کہ قومی کفایت شعاری کمیٹی نے تجویز کیا تھا لیکن ان کی کابینہ کے ارکان نے سرکاری خزانے سے کوئی تنخواہ یا سہولت نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں