اسلام اباد: فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت آج ہوگی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ آج سماعت کرےگا، چیف جسٹس نے اس بار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی بینچ کا حصہ بنایا ہے۔
ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
کیس کی سماعت آج دن 11 بج کر 45 منٹ پرہوگی۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔
سابق چیف جسٹس کی بھی درخواست دائر
خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست دائرکی تھی۔
جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے درخواست وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے دائر کی جس میں وزارت قانون، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اوربلوچستان کی صوبائی حکومتوں کوبھی فریق بنایا گیا ہے
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ میرا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کوسپورٹ کرنا نہیں، اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں، درخواست گزار کا مقصد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث مشتبہ افراد کوبری کرانا نہیں۔
مؤقف میں کہا گیا ہےکہ درخواست گزار ملزمان کے کسی فعل کی حمایت نہیں کرتا، عام شہریوں کے خلاف کیس چلانے کا فورم کرمنل کورٹس ہیں، کورٹ مارشل کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف ہوسکتی ہے، کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم وضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے، فوجی عدالتوں میں اس سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے جو فوج میں حاضرسروس سویلین ملازم ہوں۔
درخواست کے متن کے مطابق فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا بنیادی حقوق پر براہ راست اثر پڑے گا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے ذریعے سویلینز کا ٹرائل غیرآئینی قرار دیا جائے اور انہیں کارروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔
خیال رہے کہ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ 17 اگست 2015 سے 9 ستمبر 2015 تک چیف جسٹس پاکستان رہے ہیں، وہ پاکستان کے 23 ویں چیف جسٹس تھے۔