ہارورڈ یونیورسٹی کے داخلہ پروگرام کا طریقہ کار عدالت میں چیلنج

دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہارورڈ کے داخلہ پروگرام کے طریقہ کار کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا۔

انسانی حقوق سے متعلق گروپ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے طریقہ کار کو مختلف نسلی گروہوں کیخلاف تعصب پرمبنی قرار دیدیا۔

عدالت میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہےکہ ہاروڈ میں سابق طالب علموں اور ڈونرز کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر داخلے دیے جاتے ہیں جو سول رائٹس ایکٹ کی خلاف ورزی ہے اور اسے غیرقانونی قرار دیا جانا چاہیے۔

گروپ کے مطابق سابق طلبہ اور ڈونرز کے بچوں کو فوقیت دیے جانے سے سفید فام افراد کے داخلوں میں غیرمنصفانہ اضافہ ہوتا ہے۔

امریکا کی سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتے فیصلہ سنایا تھاجس میں واضح کیا گیا تھا کہ کالجوں کو چاہیے کہ وہ داخلہ دیتے ہوئے درخواست گزار کی نسل کو نظر انداز کردیں۔

ریکارڈ کے مطابق ہارورڈ میں داخلے کی درخواست دینے والے ڈونر یا سابق طلبہ کے بچوں کی شرح 70 فیصد ہے اور ایسے بچوں کو داخلہ ملنے کا امکان 6 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

مقدمہ کرنیوالوں کا کہنا ہےکہ کسی شخص کے بینک کھاتوں میں زیادہ رقم ہونا یا کسی مخصوص فیملی سے تعلق ہونا میرٹ نہیں۔

اسی حوالے سے صدر جو بائیڈن بھی کہہ چکےہیں کہ لیگیسی ایڈمیشن سے مواقع پر استحقاق کا غلبہ پیدا ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں