دنیا کی سب سے طویل اور دشوار گھڑ دوڑ ’منگول ڈربی‘ میں پاکستان کے 4 شہہ سواروں نے پہلی مرتبہ حصہ لے کر تاریخ رقم کر دی۔
پاکستانی شہہ سواروں نے 1000 کلو میٹر کی منگول ڈربی کے انفرادی مقابلوں میں 5 ویں اور ساتویں پوزیشن حاصل کی جبکہ ٹیموں میں سب سے آگے بھی رہے۔
پاکستان ٹیم کے رکن ڈاکٹر فہد جمیل اور عمیر قائم خانی نے پاکستان میں بھی طویل فاصلے کی ریس شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
پاکستانی گھڑ سوار ڈاکٹر فہد جمیل نے ریس کے بارے میں بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ریس میں 4 پاکستانیوں نے حصہ لیا، 1000کلو میٹر کا فاصلہ 10 دنوں میں مکمل کرنا تھا، یہ دنیا کی مشکل ترین ریس ہے جس میں اپنا راستہ خود بنانا ہوتا ہے جو ایک مشکل کام ہے کیونکہ راستے میں جنگل آتے ہیں اور دریاؤں کو بھی عبور کرنا ہوتا ہے اور یہ ہی اس ریس کا ایڈونچر ہے۔
ڈاکٹر فہد جمیل نے کہا کہ 50 رائیڈرز نے سفر کا آغاز کیا لیکن طبی طور پر 20 رائیڈرز ریس سے نکل گئے جبکہ 26 شہہ سواروں نے منگول ڈربی مکمل کی۔
ڈاکٹر فہد جمیل کہتے ہیں کہ پاکستان میں طویل فاصلے کی ریس کا بہت اسکوپ ہے، ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم نے اپنے پلیٹ فارم سے ایک انٹر نیشنل ریس کا آغاز کرنا ہے، یہاں گھوڑے بھی دستیاب ہیں اور علاقے بھی بہت خوبصورت ہیں، اس سے پاکستان کا ایک امیج سامنے آئے گا اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔
شہہ سوار عمیر قائمخانی کا کہنا ہے کہ منگول ڈربی میں موسم بھی سخت تھا، راستے بھی دشوار گزار تھے اس سے نبٹ لیا تھا لیکن سب سے زیادہ جو مشکل پیش آئی وہ گھوڑوں کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پرچیاں ڈالی جاتی تھیں اور پرچی نکلنے پر آپ کو گھوڑا ملتا تھا، آپ کو پہلے سے پتہ نہیں ہوتا تھا کہ گھوڑا کونسا ملنا ہے، کبھی سست گھوڑا ملتا، کبھی کمزور تو کھبی موٹا اور کبھی ایسا خطرناک گھوڑا ملتا جو بیٹھنے نہیں دیتا تھا اور اگر بیٹھ گئے تو پھر سرپٹ دوڑنا شروع کر دیتا، یہ ایک چیلنجنگ کام تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری، یہ ایک مشن تھا جسے ہم نے مکمل کیا اور پاکستان کا پرچم لہرایا۔