سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ابھی چل رہی ہے، اسلام آبادہائیکورٹ کےچیف جسٹس کیس سن رہے ہیں جو قابل تعریف ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی کوششوں کو سراہتا ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ معاملے کو دیکھ رہی ہے، بہتر ہو گا پہلے ہائیکورٹ کو اس معاملے پر فیصلہ کرنے دیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل آفس سے کوئی آیا؟ آج کے حکم نامے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل میں رہنے کی صورتحال کا پوچھیں گے، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں کس حال میں رکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں سہولیات سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔
عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ہائیکورٹ کے سامنے تمام نکات پر دلائل دیے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کا یہی شکوہ تھا کہ آپ کو سنا نہیں جا رہا اب آپ کے تمام دلائل سن لیے گئے ہیں، ہائیکورٹ سے یہی امید رکھیں کہ وہ آپ کے نکات پر فیصلہ دے گی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا ہائیکورٹ کی کارروائی کا کیا نتیجہ نکلا؟ جس پر سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا پیشگوئی کرنے والا سیاستدان نہیں ہوں ابھی میں نے لوٹا گھما کر نہیں دیکھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا سسٹم کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ پہلے ہائیکورٹ سے فیصلہ ہو پھر سپریم کورٹ آئے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز پر تنقید نا کیا کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر غصے میں ججز پر تنقید کی جاتی ہے، آئین و قانون کے تحت فیصلے اپنے عہد کے مطابق کرتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر آنے تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز عمران خان کی سزا اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ پر چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عدم اعتماد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں فیصلہ دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس پر 7 دن میں فیصلہ کرنے کا کہا اور ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ کر دیا، اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو اس میں مداخلت کر سکتے ہیں۔