کیا خلائی مخلوق یا ایلینز واقعی ہماری دنیا میں اپنی اڑن طشتریوں سے آتے رہتے ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا نے 2022 میں تحقیق کا آغاز کیا تھا اور اب جاکر اس کے حتمی نتائج جاری کیے جا رہے ہیں۔
ناسا کی جانب سے Unidentified aerial phenomena (یو اے پی) کے حوالے سے تحقیق 16 افراد پر مشتمل ٹیم کر رہی تھی جس میں سائنسدان، ایوی ایشن اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے ماہرین شامل تھے۔
خیال رہے کہ امریکی حکام کی جانب یو ایف او (Unidentified flying objects) کی جگہ یو اے پی کی اصطلاح کا استعمال چند ماہ شروع کیا گیا تھا۔
یہ اصطلاح ایسی فضائی اشیا کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کی شناخت نہیں ہوسکی اور بیشتر افراد کے خیال میں وہ اڑن طشتریاں ہو سکتی ہیں۔
اس ٹیم کی رپورٹ 14 ستمبر (پاکستانی وقت کے مطابق شام 7 بجے کے بعد) کو جاری کی جا رہی ہے۔
تحقیقی ٹیم نے مئی 2023 میں ابتدائی نتائج جاری کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ ڈیٹا اور گواہوں کے بیانات کسی حتمی نتیجے کے لیے ناکافی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حتمی رپورٹ میں کسی چونکا دینے والے انکشاف کا امکان تو موجود نہیں مگر اس کی بنیاد پر تحقیقی کام کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔
اس تحقیقی ٹیم کو امریکی حکومت کی خفیہ فائلز تک رسائی فراہم نہیں کی گئی تھی بلکہ اسے مبینہ اڑن طشتریوں کے واقعات کی جانچ پڑتال کے لیے عام ڈیٹا پر انحصار کرنا پڑا تھا۔
مئی میں ابتدائی نتائج میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ 27 برسوں کے دوران اس طرح کے 800 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جس میں سے ممکنہ طور پر 2 سے 5 فیصد درست نہیں۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے حالیہ برسوں کے دوران یو اے پیز کے معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
جولائی میں امریکی کانگریس کی مبینہ اڑن طشتریوں کے حوالے سے قائم کمیٹی کے اجلاس میں امریکا کے ایک سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار ڈیوڈ گروش نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کی جانب سے اڑن طشتریوں اور ‘خلائی مخلوق’ کے بارے میں تفصیلات چھپائی گئی ہیں۔
ڈیوڈ گروش نے کہا کہ انہیں مکمل یقین ہے کہ یو اے پیز اور ان کو چلانے والے غیر انسانی آپریٹرز امریکا کے قبضے میں ہیں۔
ڈیوڈ گروش نے کہا کہ ‘مجھے میری آفیشل ذمہ داریوں کے دوران کئی دہائیوں قبل یو اے پی کے ملبے کو اٹھانے کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘میں نے ملنے والے ڈیٹا کی بنیاد پر ان تفصیلات کی رپورٹ اپنے افسران اور دیگر حکام کو دی’۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے یو اے پیز کے بارے میں تفصیلات نہ صرف عوام بلکہ کانگریس سے بھی چھپائی گئی ہیں اور انہوں نے خود ایسے افراد سے انٹرویو کیے ہیں جو خلائی مخلوق کے بارے میں جانتے ہیں۔
سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ‘میری گواہی ان تفصیلات پر مبنی ہے جو ان افراد سے حاصل ہوئیں جو طویل عرصے سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر کے پاس تصاویر، سرکاری دستاویزات اور دیگر ٹھوس شواہد موجود ہیں’۔