کیا ایک ٹرین آپ کو اپنی منزل پر کسی طیارے سے جلد پہنچا سکتی ہے؟
ابھی تو ایسا ممکن نہیں مگر مستقبل قریب میں ضرور ایسا ہونے والا ہے کیونکہ چین میں ایسی ٹرین تیار کی گئی ہے جو مستقبل قریب میں بیشتر طیاروں سے بھی زیادہ رفتار سے سفر کر سکے گی۔
یہ ٹرین ابھی تو عام مسافروں کے لیے پیش نہیں کی جا رہی مگر اس کی آزمائش کے دوران چین نے تیز ترین ٹرین کی تیاری کا اعزاز ضرور اپنے نام کرلیا ہے۔
ٹی فلائٹ نامی ٹرین نے ایک مختصر ٹیسٹ ٹریک پر 387 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرکے یہ اعزاز اپنے نام کیا۔
ابھی جاپان کی ایم ایل ایس ماگلیو کو دنیا کی تیز ترین ٹرین قرار دیا جاتا ہے جو 361 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔
مگر چینی ماہرین کو توقع ہے کہ ان کی تیار کردہ ٹرین جب کمرشل بنیادوں پر کام کرے گی تو وہ 1243 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکے گی، یعنی آواز کی رفتار سے بھی زیادہ، جبکہ بوئنگ 737 طیارے سے اس کی رفتار دوگنا زیادہ ہوگی۔
اس رفتار سے یہ ٹرین لاہور سے کراچی کا فاصلہ محض 30 سے 40 منٹ میں طے کرلے گی۔
ٹی فلائٹ کے لیے ماگلیو ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔
ماگلیو ٹیکنالوجی سے ٹرینیں مخصوص مقناطیسی ٹریک پر فضا میں معلق ہو کر تیزرفتاری سے سفر کرتی ہیں۔
فضا میں معلق ہونے کے باعث ٹرین کے لیے رگڑ اور آواز کی آلودگی جیسے مسائل سے بچنا ممکن ہوتا ہے اور اس کی رفتار بھی بڑھتی ہے۔
یہ ایک ہائپر لوپ ٹرین ہوگی، یعنی یہ مخصوص مقامات کے درمیان ٹیوب میں سفر کرے گی۔
ہائپ لوپ وہ تصور ہے جو 2013 میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک نے پیش کیا تھا مگر وہ خود اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے۔
ٹی فلائٹ کو چائنا ایرو اسپیس سائنس اینڈ انڈسٹری کارپوریشن کے ماہرین تیار کر رہے ہیں اور اس کی آزمائش صوبہ Shanxi کے علاقے Datong میں تعمیر کی گئی 1.2 میل طویل ٹیوب میں کی گئی۔
اس آزمائش کے دوران ٹرین نے 387 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا۔
اب ماہرین کی جانب سے ٹرین کی آزمائش کے دوسرے مرحلے کے لیے ٹریک کو 30 گنا توسیع دی جائے گی تاکہ ٹرین مزید رفتار سے سفر کر سکے۔
اس ٹرین کے لیے ووہان اور بیجنگ کے درمیان ایک ٹیوب سسٹم کو تعمیر کیا جائے گا۔
ان دونوں شہروں کے درمیان 650 میل سے زیادہ فاصلہ موجود ہے اور ابھی ٹرینوں سے سفر کے دوران منزل پر پہنچنے کے لیے 4 گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔
اس ٹیوب کی تعمیر مکمل ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔