لال بیگ دنیا بھر میں کیسے پھیلے؟ سائنسدانوں نے اسرار حل کرلیا

لال بیگ ایک ایسا کیڑا ہے جو دنیا بھر میں (انٹار کٹیکا کو نکال کر) ہر جگہ نظر آ جاتا ہے۔

درحقیقت دنیا بھر میں جرمن کاکروچ اس کیڑے کی سب سے عام قسم ہے اور صدیوں سے سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر یہ کیڑا کس طرح دنیا بھر میں پھیل گیا۔

مگر اب اس اسرار کو حل کر لیا گیا ہے اور اس کی وجہ ہم انسان ہیں۔

امریکا کی ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جرمن کاکروچ ‘انسانی ساختہ ماحول کی تخلیق ہے’۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ لال بیگوں کی یہ قسم چار دیواری کے باہر سرد موسم میں زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ یہ کیڑے گرم اور نم مقامات کو ترجیح دیتے ہیں۔

تو اگر انسانوں کے تعمیر کردہ گھر، دکانیں، ہوٹل اور دیگر عمارات موجود نہ ہوتے تو ہمیں ان کیڑوں کو بھی دیکھنا نہیں پڑتا۔

سائنسدان کافی عرصے سے یہ جانتے ہیں کہ چار دیواری کے اندر لال بیگوں کی نشوونما تیز ہوتی ہے مگر وہ ان کے پھیلاؤ کا اسرار جان نہیں سکے تھے۔

اس نئی تحقیق میں ڈی این اے تجزیے کے ذریعے دریافت کیا گیا کہ جرمن کاکروچ ایشیائی لال بیگوں کے قریبی رشتے دار ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جرمن کاکروچ نے 2100 سال قبل بھارت یا میانمار میں انسانی بستیوں کے ماحول سے مطابقت پیدا کی۔

ٹرانسپورٹیشن اور چار دیواری کے اندر درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے جیسے عوامل کے باعث جرمن کاکروچ دنیا بھر میں پھیل گئے۔

تحقیق کے مطابق یہ کیڑے اپنی ننھی ٹانگوں سے تو سمندروں اور براعظموں کا سفر نہیں کر سکتے تھے، ان کا دنیا بھر میں پھیلاؤ انسانی سفر اور رہائشی سہولیات میں پیشرفت سے ممکن ہوا۔

محققین کے مطابق جرمن کاکروچ کے ماخذ کو سمجھنے سے یہ مدد ملے گی کہ یہ کیڑے کس طرح عام کیڑے مار ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں