سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینر کے ٹرائل کالعدم قرار دینے سے متعلق کیس میں لاہور ہائیکورٹ بار کی فریق بننے کی درخواست منظور کر لی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیل پر سماعت سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے استفسار کیا کہ جنہوں نے اپیل دائر کی کیا کیس میں وہ سب فریق تھے؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ سب اپیل کنندہ اصل کیس میں فریق نہیں تھے، یہ معلوم کرنا اہم ہے کہ اپیل دائر کرنے کی اتھارٹی کس کو دی گئی۔
اٹارنی جنرل منصوراعوان کا کہنا تھا مجھے دیکھنا ہوگا کہ اپیل کنندہ میں سے کتنے فریق کیس میں تھے، موجودہ قوانین میں اٹھارٹی کی ضرورت نہیں، متعلقہ افراد یا ادارہ فریق بن سکتا ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جو چیزیں فیصلے والے بینچ کے سامنے نہیں تھیں وہ اب آپ دلائل میں نہیں اپنا سکتے، کے پی حکومت نے اپیل واپس لی تو اٹارنی جنرل نے کہا کابینہ کی منظوری لائیں، جن صوبوں نے اپیلیں دائر کی ہیں کیا انہوں نے کابینہ سے منظوری لی؟
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا میری نظر میں اپیل کے لیے کابینہ کی منظوری نہیں چاہیے ہوتی، اگر کابینہ کی منظوری ضروری ہوتی تو پھر ٹیکس مقدمات میں بھی چاہیے ہو گی، جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا آپ قوانین سے بتا دیں کہ کیسے اپیل ہوتی ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ انٹرا کورٹ اپیلوں میں تو صوبوں کو بھی نہیں سنا جانا چاہیے تھا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے سینئر قانون دان حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا حامد خان صاحب، آپ کو ہم ویسے معاون کے طور پر سن لیں گے، آپ بار کی جانب سے کیوں فریق بننا چاہتے ہیں؟ ایسا ہے تو آپ کو پہلے اصل کیس میں سامنے آنا چاہیے تھا، جس پر حامد خان نے کہا اس معاملے پر بار کی ایک اپنی پوزیشن ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا حامد خان صاحب، آپ ہمارا وقت ضائع نہ کریں اصل کیس کو چلنے دیں، آپ نے بات کرنی ہے تو دیگر وکلا کی معاونت میں کر دییجیے گا۔
عدالت نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ حامد خان کو فریق بنانے پر آپ کیا کہتے ہیں؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا مجھےاس مشکل میں نہ ڈالیں، میں نے اس کیس کو براہ راست نشرکرنے کی متفرق درخواست دائر کی ہے۔
جسٹس امین الدین کا کہنا تھا براہ راست نشر کرنے کی سہولت صرف کورٹ روم نمبر ون میں ہے، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لے لی اور کہا عدالت اس کیس کا جلد فیصلہ کرے، میں ایسی درخواست کی پیروی نہیں کرتا۔
سپریم کورٹ نے حامد خان کی کیس میں فریق بننے کی درخواست پانچ دو سے منظور کر لی۔ حامد خان لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے عدالت پیش ہو کر دلائل دیں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے ویڈیو لنک پر دلائل دیتے ہوئے کہا سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل ایک اندرونی انتظام ہے، اس کا اسکوپ اپیل سے زیادہ نظرثانی کے قریب تر ہو گا۔
دوران سماعت حفیظ اللہ نیازی نے بتایا ان کے بیٹے گرفتار ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا ملزمان سے فیملی ملاقاتوں کا معاملہ حل ہو چکا تھا، حیران ہوں کہ ملاقاتیں نہیں ہو رہیں، ہماری اپیل منظور ہوتی ہے تو ملزمان فیصلوں کے خلاف اپیل کر سکیں گے، ملزمان ملٹری کورٹس کے علاوہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک آسکیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے والے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جناح صاحب نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے، اسے آگ لگائی گئی، آپ کوئی متوازی عدلیہ چاہتے ہیں؟ ہم نے تو عدلیہ کے لیے بہت کوشش کی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا ریکارڈ کے مطابق جناح ہاؤس لاہور کو بھی آگ لگائی گئی تھی، یہ بعد میں دیکھیں گے کہ قائداعظم جناح ہاؤس میں کتنے دن رہے، زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی کو آگ لگائی گئی تھی، زیارت واقعے پر شہداء فاؤنڈیشن کہاں تھی؟ کتنی درخواستیں دائر کیں؟
سپریم کورٹ نے شہدا فاؤنڈیشن کے فریق بننے کی درخواست بھی منظور کرلی اور اپنے حکمنامے میں کہا فریقین نے بتایا کہ ملزمان سے فیملی کی ملاقات نہیں ہو رہی، اٹارنی جنرل ان شکایات کا ازالہ کریں جبکہ خیبرپختونخوا حکومت کی اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 11 جولائی تک ملتوی کر دی۔