سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کے بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ ہائیکورٹ کا کراچی حیدر آباد موٹر وے کیس میں سوال

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور نے کراچی حیدر آباد موٹر وے سے متعلق سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سکھر حیدر آباد اور لاہور اسلام آباد موٹر وے بنائے گئے، جی ٹی روڈ کو تو موٹر وے نہیں بنایا گیا۔

موٹر وے پر سروس روڈ اور دیگر سہولیات تک رسائی سے متعلق کیس کی سماعت سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور نے کی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کے بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا، جن کی جائیدادیں سپر ہائی وے کے اطراف ہیں انہیں رسائی سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

وکیل این ایچ اے نے عدالت کو بتایا کہ ان شہریوں کے داخلے کیلیے انٹری گیٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں، اطراف کے لوگ تعمیرات کے لیے ادائیگی نہیں کر رہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور کا کہنا تھا یہ لوگ ادائیگی کیوں کریں گے، کیا موٹر وے اسکیم میں یہ شامل نہیں، کسی کی یہاں زمین ہے اور اچانک سڑک بن جائے تو کیا اس کا حق ملکیت ختم ہو جائے گا؟

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہا جاتا ہے سہراب گوٹھ کے بعد موٹر وے بنادیا گیا ہے، این ایچ اے سروس روڈ پر مارکیٹیں اور دکانیں بنا کر فروخت کررہا ہے، قانون کے مطابق سپر ہائی وے، سروس روڈ اور گرین بیلٹ پر تعمیرات نہیں ہو سکتی، ہماری زمینوں پر قبضہ کیا گیا، قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

عدالت کا کہنا تھا موٹر وے بناتے ہوئے پرانی زمینوں کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا، شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی اسکیم کا حصہ ہونا چاہیے، یہ تو سپر ہائی وے ہے، نیا موٹر وے کیوں نہیں بنا رہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ سکھر حیدرآباد، لاہور اسلام آباد موٹر وے بنائے گئے، جی ٹی روڈ کو تو موٹر وے نہیں بنایا گیا۔

سندھ ہائیکورٹ نے این ایچ اے اور دیگر فریقین سے 28 اگست کو جواب طلب کر لیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں