اسلام آباد: سابق نگران وزیراعظم اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جن صاحب کا کورٹ مارشل ہورہا ہے ان کو اس ہاؤس کے جانب سے سوال جانا چاہیے کہ مذاکرات کے حوالے سے اس ہاؤس کوکیسے مس لیڈ کیا گیا۔
سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 25 اور 26 اگست کی رات کو بلوچستان میں جو اندوہناک واقعات ہوئے اس سے پوری قوم غم کی کیفیت میں ہے، ان واقعات کے بعد جو پرانی گفتگو اور بیانیے تھے اسے پارلیمنٹ، سوشل میڈیا اور ریاستی اداروں میں دوبارہ چھیڑا گیا، اب مناسب وقت ہے کہ اس بحث کو ایک مثبت انداز میں آگے لے کر بڑھیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں دو سوچیں رہی ہیں ایک یہ کے دہشتگردوں سے مذاکرات ہوں اور دوسری یہ کے طاقت کا استعمال کیا جائے مگر اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ ہم ان دونوں حکمت عملیوں سے آخر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں، ایک کمیٹی بننی چاہیے جو ان چیزوں کو دیکھے۔
سابق نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشتگرد چاہتے ہیں آپ تھک ہار کر یہ لڑائی ترک کردیں، پنجاب کے رہائشیوں کو نشانہ بنانے کا مقصد پنجابی اور بلوچ کی لڑائی نہیں بلکہ دہشتگردوں کا مقصد پاکستان کو توڑنا اورنئی ریاست بنانا ہے، اگر کوئی بلوچ، سندھی یا پشتون بھی ریاست کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو ان پر یہ دہشتگرد حملہ آور ہوتے ہیں۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ کسی بھی ملک میں تشدد سے نمٹنے کا اختیار ریاست کے پاس ہے مگر بدقسمتی سے جن اداروں کو یہ ذمہ داری آئین میں ملی ہے ان کے درمیان ایک خلیج پیدا کی جارہی ہے یا پیدا ہوچکی ہے، اگر ان لوگوں کو ہم بطور ہیرو نہیں بلکہ ولن کے طور پر پیش کریں گے تو یہ جنگ آج سے ہی آپ ہاری ہوئی سمجھیں، ہمیں انہیں اپنے گھر، صوبے اور ملک کا محافظ تسلیم کرنا ہوگا اور ہر طرح سے ان کی مدد کرنا ہوگی کیونہ یہ کسی ادارے کی نہیں بلکہ قومی جنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بلوچستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کی وکالت اور وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں، وہ یہ خود کرسکتے ہیں، ان کی پوزیشن الیکشن ٹھیک نا ہونے، سیاسی حقوق نا ملنے سے متعلق نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں آپ ہماری زمین پر قابض ہیں اور ہماری الگ شناخت ہے مگر یہ لوگ صرف ایک فیصد ہیں اس لیے یہ الیکشن کے بجائے دہشتگردی کی طرف جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات ہمیشہ لڑائی کے بعد ہوتے ہیں پہلے نہیں، یہی مشرقی پاکستان میں ہمارے ساتھ اور افغانستان میں امریکا کے ساتھ ہوا جب کہ جن صاحب کا کورٹ مارشل ہورہا ہے ان کو اس ہاؤس کے جانب سے سوال جانا چاہیے کہ مذاکرات کے حوالے سے اس ہاؤس کوکیسے مس لیڈ کیا گیا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں کو مل کر ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا اگر نا کریں گے تو پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے پھر داستان نا ہوگی داستانوں میں، اللہ کرے اس سے پہلے ہم ایک سنجیدہ بات چیت شروع کریں۔