انٹار کٹیکا وہ براعظم ہے جہاں کے متعدد رازوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
وہاں کی ایک آبشار عرصے سے لوگوں کو دنگ کر رہی ہے کیونکہ اس میں بہنے والا پانی ایسا لگتا ہے جیسے وہ خون ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے بلڈ فالز کا نام دیا گیا ہے اور اسے 1911 میں سب سے پہلے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مہم جو تھامس گریفتھ ٹیلر نے دریافت کیا تھا۔
مشرقی انٹار کٹیکا میں واقع اس آبشار کا پانی Bonney جھیل میں گرتا ہے اور اس جگہ کا نام تھامس گریفتھ ٹیلر کے نام پر ٹیلر گلیشیئر رکھا گیا تھا۔
اس عہد میں تھامس ٹیلر اور دیگر ماہرین نے پانی کے سرخ رنگ کو سرخ کائی کا نتیجہ قرار دیا تھا مگر وہ غلط تھے۔
اب تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوچکا ہے کہ آبشار میں آئرن اور دیگر منرلز کی مقدار بہت زیادہ ہے اور ہوا میں موجود آکسیجن سے رابطے کے بعد آئرن پانی کارنگ خون جیسا سرخ کر دیتا ہے۔
ایسا ا س وقت ہوتا ہے جب پانی گلیشیئر سے نکل کر آکسیجن کے رابطے میں آتا ہے۔
مگرٹیلر گلیشیئر کے پگھلے ہوئے پانی کے برعکس بلڈ فالز کا پانی نمکین ہے جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ آبشار میں بہنے والے پانی کا ماخذ صرف گلیشیئر ہی نہیں۔
2017 میں ایک تحقیق میں آبشار کے خفیہ ماخذ کو دریافت کیا گیا تھا جو برف کی سطح سے 1300 فٹ نیچے موجود تھا۔
یہ تو واضح نہیں کہ وہاں پانی کتنے رقبے تک پھیلا ہوا ہے مگر محققین کے خیال مٰں زمانہ قدیم میں سمندر کا نمکین پانی وہاں طوفان سے پہنچا۔
یہ وہ عہد تھا جب ٹیلر گلیشیئر منجمد نہیں ہوا تھا اور جب سے وہ وہاں یہ ذخیرہ موجود ہے۔
اس تحقیق میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ پانی کا یہ ذخیرہ منجمد نہیں بلکہ وہاں سیال شکل میں موجود ہے، حالانکہ گلیشیئر کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے ہے۔
ماہرین کے خیال میں ایسا اس لیے ممکن ہے کیونکہ یہ پانی حرارت خارج کرتا ہے جس سے اردگرد کا علاقہ گرم ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیلر گلیشیئر سب سے زیادہ ٹھنڈا گلیشیئر ہے جہاں مسلسل پانی بہتا رہتا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آبشار کا پانی مسلسل نہیں بہتا بلکہ ایسا وقفے وقفے سے ہوتا ہے اور اس کی وجہ ابھی معلوم نہیں ہوسکی۔
2019 کی ایک تحقیق میں پانی میں ننھے جرثوموں کو دریافت کیا گیا تھا اور سائنسدانوں کے خیال میں اس دریافت سے زمین سے باہر دیگر سیاروں پر خلائی زندگی کو تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔