‘ان کے پاس جنت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا‘، بشارالاسد کے محل میں جانیوالے شامی نوجوان نے کیا دیکھا؟

دمشق: اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد بشار الاسد کو اب ملک سے فرار ہوئے کئی دن گزر چکے مگر شامیوں کی بھوک، افلاس اور ان پر ظلم کے وقت شاہانہ زندگی گزارنے والے اسد خاندان کی پیچھے چھوڑی گئی نشانیاں اب بھی شام کے لوگوں کے ذہنوں سے نہیں نکل رہیں۔

خلیجی خبر رساں ایجنسی نے سابق شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور اپنے محل سے فرار ہونے کے واقعات پر ایک مقامی نوجوان عمر (فرضی نام) کا انٹرویو کیا جو باغی فوج کے اہلکاروں کے علاوہ بشار الاسد کے محل میں داخل ہونے والے چند عام شہریوں میں سے ایک تھا۔

رپورٹ کے مطابق نوجوان نے بتایا کہ جس دن باقی باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے یا قریب ہونے اور اس کے ساتھ بشار الاسد کی خاندان سمیت فرار ہونے کی خبریں تھیں تو وہ صدارتی محل گیا۔

نوجوان نے بتایا کہ جب وہ محل کے ہال میں داخل ہوا تو اسے سامنے بشار الاسد کی ایک بڑی تصویر دیوار پر لگی نظر آئی، اس وقت بہت سے لوگ کپڑوں کے تھان اٹھائے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے جو بشار کے خاندان کے تھے۔

عمر نے بتایا ‘ وہاں ہر طرح کے جوتے تھے، مجھے انہیں جلا دینا چاہیے تھا مگر وہ بہت اچھے تھے’۔

نوجوان کے مطابق وہاں مختلف ممالک کے سربراہوں کی جانب سے بھیجے گئے تحفے بھی تھے، الغرض کے ان کے پاس جنت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جب کہ باقی لوگ سب بھوکے مرتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق محل میں کئی سرنگیں بھی تھیں جن میں سے ایک مشرق اور ایک مغرب کی جانب جاتی تھی جب کہ ایک تیسری سرنگ محل کے ساتھ ایک پڑوس کے گھر کی طرف جاتی تھی جو کچھ زیادہ ہی خوبصورت اور جدیدتھا، ممکنہ طور پر یہاں بشار الاسد کے بچے رہتے تھے جب کہ اس مکان سے آگے مزید ایک گھر کا دروازہ تھا جہاں روسی سفارت کار رہتے تھے۔

خبر ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بشار کا محل اب ایک گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کررہا ہے، وہاں ہر چیز بکھری ہوئی ہے، وہاں بشار الاسد کے خاندان کی تصویریں، مہنگے کپڑے، فلموں کی ڈی وی ڈیز، بہت سی کتابیں اور میگزین بکھرے پڑے ہیں، ایک فائل پر ٹاپ سیکریٹ لکھا تھا جس میں بشار کے ملازموں کے نام درج ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں