حالیہ سیٹلائیٹ تصاویر سے تصدیق ہوئی ہے کہ یہ برفانی تودہ اس جگہ سے نکل گیا ہے جہاں وہ کئی ماہ سے پھنسا ہوا تھا۔
ماہرین کے خیال میں یہ ساؤتھ جارجیا کی جانب بڑھ سکتا ہے اور اس خطے کا گرم موسم اے 23 اے کو چھوٹے برفانی تودوں میں تقسیم کر دے گا جو بتدریج پگھل جائیں گے۔
سیٹلائیٹس کے ساتھ ساتھ اس برفانی تودے پر RRS Sir David Attenborough پر سوار محققین بھی تحقیق کر رہے ہیں۔
اس بحری جہاز پر موجود ماہرین کو توقع ہے کہ ان کی تحقیق سے برفانی تودے کے مقامی ماحول پر مرتب اثرات کو جاننے میں مدد ملے گی۔
اس برفانی تودے کی برف کی موٹائی 400 میٹر ہے اور یہی وجہ ہے کہ سائنسدانوں کی جانب سے اس کے سفر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے خطے کی بحری حیات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ عرصے سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اے 23 اے نامی یہ برفانی تودہ 1986 میں انٹار کٹیکا کے ساحلی علاقے سے الگ ہوکر بحیرہ ودل کی تہہ میں رک کر ایک برفانی جزیرے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
1500 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا یہ برفانی تودہ کراچی سے بھی کچھ بڑا ہے۔
خیال رہے کہ کراچی کا رقبہ 1360 اسکوائر میل ہے۔
1986 کے بعد برسوں تک یہ تودہ ایک جگہ رکا رہا مگر 2020 میں اپنی جگہ سے آگے بڑھ کر بتدریج South Orkney Islands تک پہنچ گیا۔
مگر پھر گزشتہ کئی مہینوں سے یہ برفانی تودہ ایک ہی جگہ پر سست روی سے گھوم رہا تھا اور اب اس نے ایک بار پھر اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔
برٹش انٹارکٹک سروے (بی اے ایس) کے ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ اے 23 اے اپنی جگہ سے آگے بڑھنے لگا ہے اور سدرن اوشین کی جانب کھسک رہا ہے۔
بی اے ایس کے بحری جغرافیہ کے ماہر اینڈریو مائیجرز نے بتایا کہ اے 23 اے کو ایک بار پھر حرکت کرتے دیکھنا پرجوش کردینے والا لمحہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘ہم یہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ انٹار کٹیکا سے الگ ہونے والے دیگر بڑے سمندری تودوں والے روٹ پر ہی آگے بڑھتا ہے یا نہیں، اس سے بھی زیادہ یہ جاننا اہم ہے کہ اس سے مقامی سمندری نظام پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں’۔