2024 باضابطہ طور پر تاریخ کا گرم ترین سال قرار

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سالانہ اوسط عالمی درجہ حرارت 2024 میں پہلی بار صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.5 ٖڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ ہوا۔

اس طرح گزشتہ سال انسانی تاریخ کا گرم ترین سال بن گیا ہے۔

یورپی موسمیاتی ادارے Copernicus کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ 2024 کا اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔

درحقیقت رپورٹ کے مطابق 2024 ممکنہ طور پر گزشتہ ایک لاکھ سال میں سب سے زیادہ گرم ترین ثابت ہوا۔

اس سے قبل 2023 انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قرار پایا تھا جس کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.48 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ خام ایندھن جیسے کوئلے، تیل اور گیس کو جلانا ہے جس سے دنیا بھر میں زندگیوں اور روزگار کو نقصان پہنچا ہے۔

خیال رہے کہ 2015 کے پیرس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا۔

مگر ایسا اس وقت تصور کیا جائے گا جب ایک یا 2 سال کی بجائے پوری ایک دہائی کا درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.5 ڈگری زیادہ ہو۔

موسمیاتی ادارے کے ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ 10 جولائی 2024 وہ دن تھا جو جب دنیا کا 44 فیصد خطہ شدید حرارت سے متاثر ہوا جبکہ تاریخ کا گرم ترین دن 22 جولائی کو ریکارڈ ہوا۔

ادارے کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سمانتھا بریس نے بتایا کہ اب اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہم طویل المعیاد بنیادوں میں پیرس معاہدے کے طے کردہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف کو پیچھے چھوڑ دیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ عالمی سطح پر بڑھتے درجہ حرارت اور 2024 میں کرہ ہوائی میں بخارات کی ریکارڈ سطح کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے وقت میں دنیا کو بے نظیر ہیٹ ویوز اور انتہائی شدید بارشوں جیسے واقعات کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے کروڑوں افراد کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔

امپرئیل کالج لندن کے ڈاکٹر فریڈرک اوٹو نے کہا کہ اس ریکارڈ کے حوالے سے حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، شدید گرم موسم والے برس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر اسپین میں دریائی سیلاب، امریکا میں سمندری طوفان اور ایمازون میں خشک سالی، گزشتہ سال کی محض 3 قدرتی آفات ہیں جن کی شدت موسمیاتی تبدیلیوں سے بدتر ہوئی، یہ فہرست اس سے کہیں زیادہ طویل ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو 2025 میں معاملات کو مزید بدتر ہونے سے بچانے کے لیے کسی جادوئی حل کی ضرورت نہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مثبت تبدیلی کے لیے کیا کرنا چاہیے، یعنی خام ایندھن کا استعمال کم از کم کرنا ہوگا، جنگلات کی کٹائی کو روکنا اور معاشروں کو زیادہ مضبوط بنانا ہوگا۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2024 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ریکارڈ سطح پر ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ خام ایندھن کے متبادل کے حوالے سے ابھی کچھ خاص کام نہیں ہو رہا۔

2024 کی اولین ششماہی کے دوران درجہ حرارت میں اضافے کی ایک وجہ ایل نینو بھی تھا۔

واضح رہے کہ ایل نینو ایک ایسا موسمیاتی رجحان ہے جس کے نتیجے میں بحرالکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہوجاتا ہے اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

مگر ایل نینو کے ختم ہونے کے بعد بھی 2024 کی دوسری ششماہی میں درجہ حرارت کی شدت میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور سائنسدانوں کے خیال میں کسی غیرمتوقع عنصر نے اس حوالے سے کردار ادا کیا اور اس سے درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار مستقبل میں مزید بڑھ سکتی ہے۔

یورپی ادارے نے بتایا کہ شدید گرم موسم کے حوالے سے پیدا ہونے والا موسمیاتی بحران اب بالکل واضح ہے اور ہیٹ ویوز کی شدت اور دورانیے میں اتنا اضافہ ہوچکا ہے جو ماضی میں ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تو بس ابھی آغاز ہے، اب ممکن ہے کہ آنے والے ہر برس تاریخ کا گرم ترین سال ثابت ہو اور اس کا مطلب ہے کہ اس صدی کے اختتام پر ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ 2024 تو اس صدی کے ٹھنڈے ترین برسوں میں سے ایک تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2024 کے ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے درجہ حرارت میں 1.6 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ حیران کن نہیں بلکہ یہ بات حیران کن ہے کہ حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار کتنی زیادہ بڑھ چکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں